بنگلہ دیش: عبدالقادر ملّا کی پھانسی پر عملدرآمد اچانک روک دیا گیا
ڈھاکہ: اس وقت جب بنگلہ دیش کی حزب مخالف کی ایک مذہبی جماعت کے رہنما کے وکلاء ان کی سزائے موت کو روکنے کی کوششوں میں مصروف تھے، بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما 65 سالہ عبدالقادر ملا کو پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے انتہائی ڈرامائی انداز میں یہ حکم اس وقت جاری کیا جبکہ عبدالقادر ملّا کو ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی دینے میں محض ڈیڑھ گھنٹہ ہی باقی رہ گیا ہوگا۔
بنگلہ دیشی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق جیل حکام نے اس سے پہلے رات آٹھ بجے عبدالقادر ملا کے اہل خانہ کی آخری ملاقات کرائی گئی، جو چالیس منٹ تک جاری رہی۔ آخری ملاقات کرنے والوں میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی رہنما عبدالقادر ملا کی اہلیہ و دیگر اہل خانہ شامل تھے۔
اسی دوران عبدالقادر ملا کے وکلا کی تین رکنی ٹیم جس میں محبوب حسین، عبدالرزاق اور تاج الاسلام شامل تھے رات ساڑھے آٹھ بجے سپریم کورٹ کے جج سید محمود حسین سے ان کی رہائش گاہ پر ملے اور پھانسی پر عمل درآمد رکوانے کی اپیل دائر کر دی۔
اپیل میں موقف اختیار کیا گیا کہ ”عبدالقادر ملا کی سپریم کورٹ میں دائر کردہ نظر ثانی کی پہلے سے دائر کردہ اپیل کا فیصلہ سامنے آئے بغیر پھانسی دیا جانا غیر آئینی اور غیر قانونی ہو گا۔“
سپریم کورٹ کے فاضل جج نے یہ اپیل وصول کرتے ہوئے وکلا کی اس ٹیم کو حکم دیا کہ اپیل کی ایک کاپی فوری طور پر اٹارنی جنرل محبوب عالم کو ان کے گھر پر پہنچائی جائے تاکہ وہ اپنے دلائل دے سکیں۔
عبدالقادر ملا کے وکلا اٹارنی جنرل کے گھر پہنچے مگر ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اٹارنی جنرل سے فون پر بات کی کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی تو وکلا دوبارہ جسٹس سید محمود حسین کی رہائش گاہ پر آئے۔ جنہوں نے جیل حکام کو سزا پر عمل درآمد سے تقریبا ساڑھے نو بجے روک دیا۔
واضح رہے حسینہ واجد حکومت کی طرف سے 2010 میں قائم کیے گئے انٹر نیشنل کرائمز ٹریبیونل نے ماہ فروری کے آغاز پر ایک مقدمے میں بری کرتے ہوئے پانچ مختلف مقدمات میں عبدالقادر ملا کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
عالمی سطح پر اس متنازعہ مانے جانے والے ٹریبیونل کی سزا کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے عمر قید کو سزائے موت میں بدل دیا۔
اتوار آٹھ دسمبر کو انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل نے ملّا عبدالقادر کی پھانسی کا ایک وارنٹ جاری کیا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ پینسٹھ برس کے ملّا کو کسی بھی دن پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے، اور انہیں صرف اس صورت میں معافی مل سکتی تھی کہ یا تو صدر عبد الحامد ان کی اس سزا کو معاف کردیں، یا پھر اعلٰی ترین عدالت اس مقدمے پر نظرثانی کرے۔
اس وقت سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر پراسیکیوٹر زیاد المعلم کا کہنا تھا ”جیل کے حکام اب جیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق انہیں پھانسی دے دیں گے۔“ انہوں نے زور دیا تھا کہ صرف صدارتی معافی ہی اس سزا پر عملدرآمد کو روک سکتی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں