وزیرِ اعظم کا شکوہ
وزیرِ اعظم نے شکایت کی ہے کہ اب تک کی حکومتی کارکردگی سے متعلق میڈیا اپنی رپورٹس میں اُن کے ساتھ انصاف نہیں کررہا ہے۔ گذشتہ ہفتے کے اختتام پر ان کا شکوہ تھا کہ قیمتوں میں حالیہ کمی کے رجحان کو اُجاگر کرنے کے بجائے مہنگائی کو زیادہ اچھالا گیا ہے۔
کارکردگی سے متعلق میڈیا کے غیر منصفانہ کردار کی حکومتی شکایت بھی خود اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود میڈیا کی حکومتوں سے اپنی شکایات۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں اکثر حکومتوں نے میڈیا سے غیر منصفانہ شکایت کا ازالہ بدتر ظلم کی صورت میں کیا ہے اور تاریخ کی ان حکومتوں میں خود پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت بھی شامل ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اکثر سیاسی معاملات اورحکومتی کارکردگی سے متعلق اطلاعات کی فراہمی کے دوران میڈیا کے ایک حصے کا کردار مبصر سے زیادہ اُس عمل میں شریک فریق سا ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی یہ کچھ ایسا نہیں کہ ایک متحرک اور پروان چڑھتی جمہوریت اسے ہضم نہ کرسکے۔
اگرچہ تاریخی طور پر اس کی کارکردگی پر جو تنقید کی جاتی رہی، اب تک وہ اس سے کہیں دور ہے تاہم مسلم لیگ ۔ نون کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود بڑھتی تنقید کی طرف لے کر جارہی ہے، جس کی دو وجوہات ہیں: نہ تو اب تک وہ یہ ظاہر کرسکی کہ اس کی جامع حکمتِ عملی کیا ہے اور نہ ہی وہ یہ بتاسکی ہے کہ منصوبہ بندی پر کس طرح عمل کرے گی۔
ایک نظر معیشت کے محاذ پر ڈالیے۔ معیشت کا انتظام لڑکھڑاتی چال چل رہا ہے اور اسے چلانے والے کھلے عام اس کی وجوہات اور اپنے جائزے بتانے پر آمادہ نہیں، جس سے آج سے صورتِ حال مزید زوال کی طرف جارہی ہے۔
ایک اور محاذ کہ جہاں وزیرِ اعظم نے حکام کی تقرریوں میں مناسب انتخاب کیے لیکن بعد میں وہ متنازعہ ہونے لگے۔ مثال کے طور پر اگر ایک سیکریٹری خارجہ کاانتخاب کر کے، سرکاری سطح پر اس کے نام کا اعلان کیا جاچکا تو پھر آخری لمحات میں کی گئی تبدیلی سے وزیرِ اعظم سمیت تمام متعلقہ شخصیات کو شرمندگی سے کیوں دوچار کیا گیا؟
یہ واقعات تو سیاسی فالج زدگی اور فیصلے میں اُس پس و پیش کا صرف چھوٹا سا ایک نمونہ ہیں، جن میں مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت گھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
میڈیا پر وزیرِ اعظم کے تنقید سے بھرے اس بیان میں پریشانی کا پہلو وقت کا انتخاب ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب ابھی ابھی نئے آرمی چیف کا تقرر ہوا اور نئے چیف جسٹس رواں ہفتے اپنے منصب کا حلف اٹھائیں گے، ایسے میں حکومت پر نگاہیں لگی ہیں کہ وہ اچھی کارکردگی اور ٹھوس پالیسی کے ذریعے ملک کو آگے کی طرف لے کر بڑھے گی۔
لیکن وزیرِ اعظم کے مذکورہ بیان سے لگ رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر قربانی کے کسی بکرے کی تلاش میں ہیں؟ گورنس کے محاذ پر کارکردگی بہتر کرنے کے لیے یقینی طور پر یہ بات کوئی نیک شگون نہیں۔