کوئی حیرانی نہیں
جب نواز شریف کی حکومت نے دولتمند تاجروں، کاشت کاروں اور کاروباری طبقے کو اُن کے حصے کی ادائیگی سے دور رکھنے کی خاطر بجٹ میں بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکسوں کی بھرمار شروع کی تھی، تب ہی کئیوں نے افراطِ زر یا مہنگائی کے پلٹنے سے خبردار کردیا تھا
یہ وارننگ اُس وقت ایک بار پھر سنائی دی تھی جب روپے کی قدر تیزی سے گرنے لگی اور اسٹیٹ بینک اُس وقت تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہا جب تک بہت دیر نہ ہوچکی (موجودہ حکومت کے پہلے مالیاتی سال کے اوائلی پانچ ماہ کے دوران، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ اپنی قدر دس فیصد تک کھوچکا ہے۔)
اسی طرح، جب بجلی کی پوری لاگت 'وصول' کرنے کی خاطر گھریلو صارفین کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا، اُس وقت بھی کسی کو اس پر کوئی شک نہیں تھا کہ مقررہ آمدنی کے اندر زندگی بسر کرنے والوں پر اس فیصلے کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
لہٰذا اس تناظر میں، گذشتہ پندرہ ماہ کے دوران، نومبر میں مہنگائی کی شرح میں تقریباً گیارہ فیصد کے سب سے زیادہ اضافے پر کسی کو حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہمارے تجربہ کار بجٹ سازوں نے غیر حقیقی طور پر رواں مالیاتی سال کے دوران افراطِ زر کو آٹھ فیصد تک رکھنے کا تخمینہ لگایا تھا لیکن گذشتہ پانچ کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس یا صارفین کے لیے قیمتوں کا اشاریہ ان کی توقعات کے برعکس ہدف سے اوپر ہی رہا ہے۔
حتیٰ کہ قدامت پسند مرکزی بینک نے بھی پیشگوئی کی تھی گذشتہ مالی سال کے ساڑھے سات فیصد کے مقابلے میں، رواں مالیاتی سال کے دوران قیمتوں میں ساڑھے دس سے ساڑھے گیارہ فیصد تک اضافہ ہوگا جبکہ گذشتہ ستمبر سے اب تک خود بینک شرح سُود میں ایک فیصد کا اضافہ کرچکا ہے۔
قیمتوں میں اضافہ ہر ایک پر اثر انداز ہوتا ہے، غریبوں سے لے کر مڈل کلاس طبقے تک، سب اس سے متاثر ہیں۔
گذشتہ مئی میں منعقدہ عام انتخابات سے قبل پاکستان مسلم لیگ ۔ نون نے وعدہ کیا تھا کہ وہ قیمتوں میں اضافے پر قابو پا کر آہستہ آہستہ مہنگائی کم کرے گی لیکن تیزی سے بڑھتی مہنگائی کا شکار ہونے والوں کو یہ حفاظتی ڈھال فراہم کرنے میں نااہل ثابت ہوئی ہے۔
اس وقت پاکستان مسلم لیگ ۔ نون سے وابستہ سیاستدان دلاسہ دیتے نظر آرہے ہیں کہ بس ذرا مشکل فیصلوں کا مطالبہ کرنے والا یہ وقت گذر جائے اس کے بعد عوام حالات میں بہتری دیکھیں گے لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔
پاکستانی مالیات کا انتظام چلانے والے وزیرِ خزانہ کے پاس ضروریاتِ زندگی، خاص طور پر خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں تیز رفتار اضافہ روکنے کی کوئی حکمتِ عملی موجود نظر نہیں آتی ہے۔
عوامی غیض و غضب کے بھڑکنے اور خود کو اس سے بچانے کی خاطر، حکومت لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جو محسوس کررہی ہے، بہت زیادہ دیر ہوجانے سے پہلے ہی اس پر عمل کرلے۔