• KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:12pm Asr 4:28pm
  • ISB: Zuhr 12:17pm Asr 4:32pm
  • KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:12pm Asr 4:28pm
  • ISB: Zuhr 12:17pm Asr 4:32pm

!دہشتگرد کمینے ہیں

شائع December 4, 2013
فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

ہم جانتے ہیں کہ وہ سنگدل قاتل ہیں، ہزاروں لوگوں کو نیست و نابود کر دینا ان کے لئے معمولی بات ہے. انہیں نہ نتیجے کی فکر ہے نہ افسوس- وہ بنا کسی ہچکچاہٹ کے حاملہ عورتوں اور کھلکھلاتے بچوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں، بڑے اطمینان کے ساتھ ایک بھرے پرے گھر کو ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعہ مٹی کا ڈھیر بنا سکتے ہیں- ایسی جگہوں کے باسی، عسکریت پسندوں کے کردار کے اس پہلو سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، انکا مقصد سواۓ تباہی کے اور کچھ نہیں ہوتا-

یہ کشت و خون کا بھیانک رقص ہے، یہ کمزور اور مسخ شدہ مقاصد کے نام پر تخریب کاری ہے-

ایک دہشتگرد کی شخصیت، اس کے عادات و اطوار سمجھنے کی لاکھ مخلصانہ کوششوں کے باوجود، اسکی شخصیت کے چند سادہ مگر بنیادی حقائق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے- یہ اپنے مالک سے جھوٹ بولتے ہیں، اپنی بیویوں کو دھوکہ دیتے ہیں، یہ عیش پرست ہوتے ہیں، اخلاقی طور پر زوال پذیر ہوتے ہیں اور لاابالی ہوتے ہیں-

ایک دہشتگرد آپ کا وہ دوست بھی ہو سکتا ہے جو آپ سے کار ادھار مانگے اور اسے بالکل تباہ کر ڈالے، آپ سے قرض مانگے اور کبھی واپس نہ کرے، مدد کا وعدہ کر کے کبھی پورا نہ کرے- اگر ان معروف دہشت پسندوں کی ذاتی خباثتوں کی تحقیق کی جاۓ تو یہی بات سامنے آۓ گی کہ بلآخر دہشتگرد بن جانے والے افراد درحقیقت انتہائی غلیظ لوگ رہے ہیں-

انہی دہشتگردوں میں ایک نمایاں نام، نومبر سنہ دو ہزار آٹھ میں ممبئی حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ ڈیوڈ ہیڈلے ہے- لشکر طیبہ کا جنگجو بننے سے پہلے، ڈیوڈ عرف داؤد کی ذاتی آواراگردیوں کا خلاصہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ درحقیقت ایک انتہائی کمینہ انسان تھا-

لاہور میں اپنی نوعمری کے دنوں میں، ایک دن اس نے پنجاب کیڈٹ کالج کے ایک دوست کو شمال مغربی پاکستان کی سیر کے لئے راضی کر لیا- ڈیوڈ کا پرخلوص اور نیک نیت دوست اسے اپنے ساتھ لے کر گھومتا رہا- اس روڈ ٹرپ کو تفریح سمجھ کر ااس نے اپنی فوجی شناخت کے ذریعہ ممنوعہ جگہوں تک کی رسائی حاصل کرلی-

اس پورے عرصہ، ڈیوڈ اس ٹرپ کے ذریعہ ہیروئن جمع کرتا رہا جسے وہ واپس امریکا سمگل کرنا چاہتا تھا- اس نے اپنے دوست کو یہ سب نہیں بتایا تھا اور ہیروئن کار کے ٹرنک میں چھپا رکھی تھی- یہ اس دوست کی خوش قسمتی تھی کہ وہ دونوں پکڑے نہیں گۓ-

ڈیوڈ کی مہم جوئی یہیں ختم نہیں ہوئی- اپنی لائی ہوئی ہیروئن استعمال کرنے کے لئے اس نے لاہور میں اپنے لئے ایک گھر حاصل کیا- وہیں اس نے ایک لڑکی کو بھی بلایا- وہ لڑکی منشیات کے بھاری استعمال سے مر گئی اور ڈیوڈ امریکا فرار ہو گیا-

جہاں بھی یہ دہشتگرد جاتے ہیں اپنے پیچھے بیویاں اور بچے چھوڑ جاتے ہیں، جن کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی-

خالد شیخ محمد، امریکیوں کے قتل کی سازش سے لے کر اپنی روپوشی تک، دنیا کے مختلف حصّوں میں اپنی بیویاں اور بچے چھوڑتا چلا گیا- خالد کے کم ز کم دو بچے طارق روڈ، کراچی کے پیچھے ایک گھر سے برآمد ہوۓ- وہ ہر قسم کی ممنوعہ اشیاء، ہتھیاروں اور جعلی پاسپورٹوں کے بیچ رہ رہے تھے- مبینہ طور پر انکی دیکھ بھال ایک عورت کر رہی تھی جس کا وہ نام تک نہیں جانتے تھے- کسی کو انکی ماں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی-

داؤد یا ڈیوڈ ہیڈلے جیسے جیسے زندگی میں آگے بڑھتا گیا، دہشتگردوں کی روایت کے عین مطابق اپنے پیچھے بےیار و مددگار بیوی بچے چھوڑتا چلا گیا- لاہور میں لشکر طیبہ کی قیادت میں دراندازی کی کوششوں کے دوران اس نے شازیہ احمد سے شادی کرلی اور دو بچے بھی پیدا کر لئے- جلد ہی وہ گھریلو زندگی سے تنگ آگیا اور امریکا چلا گیا- وہاں اس نے اپنی گرل فرینڈ پورشیا کو پروپوز کیا جو ایک عرصے سے اسکا انتظار کر رہی تھی- ان دونوں نے جمائیکا میں چھٹیوں کے دوران شادی کرلی، ڈیوڈ نے پورشیا کو پاکستان میں اپنی بیوی بچوں کے بارے میں کچھ نہ بتایا-

یہ تمام نکات صرف ایک بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں- نہ صرف یہ دہشتگرد ماسٹر مائنڈ، بیشمار معصوم متاثرین کے مصائب سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ یہ کسی کو بھی سمجھنے اور چاہنے کی صلاحیت سے محروم ہیں- وہ عورتیں جو انہیں چاہتی ہیں، وہ مائیں جو انکا انتظار کر رہی ہوتی ہیں اور وہ بچے جنہیں وہ اس دنیا میں لے کر آتے ہیں وہ سب ان کے لئے اتنے ہی غیر ضروری ہیں جتنے وہ لوگ جن کا یہ قتل کرتے ہیں-

ان دہشتگردوں کا خمیر کسی استحصال، تصوراتی کشمکش یا نظریاتی جدوجہد سے تیار نہیں ہوتا- اس کی وجہ صرف برے اخلاقی عناصر ہیں، جو پہلے تو چھوٹی برائی کی شکل میں ہوتے ہیں، اور اوسط درجے کی اخلاقی پستی اور بے راہ روی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں-

اس طرح اگر دیکھا جاۓ تو دہشتگردی، چھوٹے درجے کی کمینگی، منشیات، بدکاری، عورتوں کے استحصال اور بیوی بچوں سے بیوفائی جیسے چھوٹے گناہوں کی پیداوار ہے، جو آگے جا کر بڑے پیمانے پر عالمی قتل و غارتگری میں تبدیل ہوجاتے ہیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (5) بند ہیں

Aasma Qamer Dec 04, 2013 02:59pm
So true and very well analyzed
Tariq Abbasi Dec 04, 2013 05:07pm
This is a very important psychological analysis. I am a university teacher and will refer this to my fellows. You cannot imagine how this analysis supports my own view point.
Moosavi Dec 04, 2013 09:03pm
@Aasma Qamer:
سید علی نومان Dec 04, 2013 09:16pm
@Tariq Abbasi:
Azeem Hassan Dec 05, 2013 07:04pm
Good mam, a thought provoking article, but very sorry to say that your subjectivity remains dominated in the article, you could not drag out yourself from this writing, which is not appreciable in any literary writings. There are so many sentences which overlapped your research work, this does not go in your favour and shows lack of hard work.

کارٹون

کارٹون : 14 مارچ 2025
کارٹون : 13 مارچ 2025