ملتان کی کہانی - 4
ریل کی سیٹی
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔
یہ اس بلاگ کا چوتھا حصّہ ہے، پہلے، دوسرے اور تیسرے حصّے کے لئے کلک کریں
ملتان کا یہ شہر جب سے آباد ہوا ہے تب سے کسی آمد کا منتظر ہے۔ بھلے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے دروازے گھٹتے گھٹتے کم ہو جائیں یا واہموں کی مانند بس نشان چھوڑ جائیں، خوش آمدید کا ایک تاثر ہے جو اب بھی سرائیکی لہجے میں صاف سنائی دیتا ہے۔
مٹی اور پانی کا یہ رشتہ ایسا دل پذیر ہے کہ شہر دریاؤں کو پنجند پہ ملاتا ہے اور دریا شہر کو بہاول پور اور مظفر گڑھ سے جدا کرتے ہیں۔ دریا دلی اور زمین دوستی کی انہی بھول بھلیوں میں کہیں موسیٰ پاک جیسے تارک الدنیا فقیر پیدا ہوتے ہیں تو کہیں نادر شاہ درانی جیسے دنیا گیر بادشاہ۔۔۔
بیسویں صدی کا آنکڑا لگا تو کہانی نے نیا موڑ لے لیا۔ وہ ملتان جس میں ایک عالم سے لوگ آ کر آباد ہوئے تھے، اب اپنے ہی شہریوں پہ تنگ پڑنے لگا۔ فساد کا پاگل پن یہاں پہنچا تو کپاس کے کھیتوں سے آم کے باغوں تک کچھ نہ بچ سکا۔ شہر میں مسلمان آبادی کا خاطر خواہ حصہ تھے جبکہ ہندو اور سکھ کم تعداد میں تھے، سو ہندوستان کے باقی حصوں کی طرح یہاں بھی اکثریت نے اقلیت کے ساتھ وہی کچھ کیا جو تقسیم کا خاصہ تھا۔
مارچ 1947میں راولپنڈی کے ہنگاموں کی دھمک ملتان میں بھی سنائی دینے لگی۔ شہر کے ہندو اور سکھ طالب علموں نے پنجاب میں مسلم لیگی وزارتوں کے خلاف جلوس نکالا، جس پہ چند "نامعلوم مسلح افراد" نے حملہ کر دیا۔
حملہ آوروں کی قیادت کوئی سید صاحب کر رہے تھے جو مولانا فضل اللہ کی طرح سفید گھوڑے پہ سوار تھے اور مومنین کو کافرین پہ ہلہ بولنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو پولیس چپ چاپ تماشا دیکھ رہی تھی۔ جلوس کے منتشر ہوتے ہی ہجوم نے اپنا رخ سکھوں اور ہندووں کے گھروں کی طرف کیا اور ان کی آبادیوں کو آگ لگا دی۔
برتری کے زعم اور کلکتے کی کہانیوں نے انہیں اس قدر اندھا کر دیا تھا کہ انہیں ٹی بی ہسپتال کے خون تھوکتے مریض بھی نظر نہیں آئے۔ موت کے منتظر ان لوگوں کو موت کی سزا سنانے والوں نے خدا کے فیصلے کا انتظار بھی نہیں کیا۔
انہی دنوں، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، بھی ملتان میں اپنے دوست، سیٹھ کلیان داس، کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ بلوائی سیٹھ صاحب کے گھر پہنچے تو سیف الدین اپنے میزبان کی جان بچانے باہر آ گئے۔ حملہ آوروں نے انہیں تو چھوڑ دیا مگر کلیان داس کے گھر سے کوئی نہیں بچا۔
کانگریسی ہونے کے ناطے ڈاکٹر صاحب نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ ایسا پاگل پن پاکستان کا ہی مقدر ہوگا مگر جب ستمبر میں امرتسر میں ان کا گھر بھی جل گیا تو انہیں اس بات کی سمجھ آئی کہ تشدد کا کوئی وطن نہیں ہوتا اور نفرت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
ملتان کی آگ نواحی دیہاتوں سے ہوتی ہوئی شجاع آباد اور مظفر گڑھ تک بھی پہنچی۔ بستی اہیر، بھوجے والا اور قصبہ مرال جیسے لا تعداد گاؤں تھے جو خوشی اور غمی میں سانجھے تھے مگر سیاست کی لکیر کھنچی تو یہ سب عقیدے کے اس طرف آ گئے، جہاں تاریخ تاریک تھی ۔
15 L کی جو نہر زندگی کا سامان کرتی تھی اور ہر چک کا لاحقہ تھی، اب آئے روز لاشوں سے اٹنے لگی۔ سیتا پور کی کچھ سیتائیں فساد کی بھینٹ چڑھ گئیں اور باقی کنوؤں میں کود گئیں۔
آنند پور سے آنند رخصت ہوا اور کرتار پور سے تو شائد ان دنوں کرتار نے بھی منہ موڑ لیا تھا۔ میاں چنوں کے سکھوں سے میلسی کے ہندوؤں تک جس کے پاس بھی جانے کا حوصلہ تھا، چلا گیا۔
پیچھے رہ جانے والے دوکان داروں کو جو دھمکی آمیز چٹھیاں ملی، وہ اب بھی کسی نہ کسی ریکارڈ روم میں سرکاری دستاویزات کا حصہ ہیں۔ ان بستیوں میں صرف انسانوں کی جان، عورتوں کی عزت اور عبادت گاہوں کی تقدیس پامال نہیں ہوئی، بلکہ نفرت کی وہ پنیری لگائی گئی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے زرخیز ہوئی۔
ہندوستان کے دامن میں ایک سرحد کی لکیر نہیں کھنچی تھی بلکہ ایک تہذیبی انقلاب وارد ہوا تھا۔ نیا دور، تاریخ کے نئے حوالے مانگتا ہے جس میں پرانی نشانیاں آپ ہی آپ کہیں مٹ جاتی ہیں۔ اپنے مرقد میں گم رہنے کے بہت سالوں بعد جب وزارت اور امارت نے ملتان پہ مہربانی کی بھی تو زیادہ فرق نہیں پڑا۔
ملتان کی چہار چیز میں سے گورستان ہاوئسنگ کالونیوں کی زد میں آ گئے، گدا، گدی نشین ہو گئے، گرما میں شہر اے سی کے حوالے ہو جاتا ہے اور رہی گرد تو اب اس میں زمانہ کی بھی بہت سی گرد شامل ہو چکی ہے۔
نیا شہر، پرانے شہر سے بہت مختلف ہے اور اس کا ثبوت ریل کی پٹڑی کے اس پار چند بوسیدہ سے گھر ہیں جہاں گنتی کے کچھ ہندو بستے ہیں۔ بابری مسجد پہ حملہ کے بعد ان لوگوں نے اپنا مذہب، اس کمال سے اپنے نام کی اوٹ میں چھپا لیا ہے کہ دو چار ملاقاتوں میں تو گمان بھی نہیں پڑتا۔ تبدیلیء مذہب سے بے روزگاری تک ان کے شکووں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان ریاست ان کے لئے کچھ زیادہ نہیں کرتی، مگر یہ کون بتا سکتا ہے کہ مسلمان ریاست مسلمانوں کے لئے کیا کرتی ہے۔
اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے لئے زندگی تو تنگ ہے ہی، مرنا بھی بہت کٹھن ہے۔ جس شہر سے کبھی ہولی کی رسم شروع ہوئی تھی، آج اس شہر میں آخری رسومات کے لئے شمشان گھاٹ تک میسر نہیں۔
ایک درخت کے نیچے دھری کچھ مورتیاں اس وقت کی یاد دلاتی ہیں جب ملتان کی پہچان پرہلاد کا مندر تھا۔ شام ہوتی ہے تو آ ہستہ آہستہ مندر بھرنے لگتا ہے، مگر اس سب کے باوجود ملتان میں نوراتڑی اتنی ہی خاموشی سے آتی ہے جیسے آسٹریا کے شہر گراز میں عید، کوئی مل گیا تو منا لی اور نہ ملا تو نہ سہی۔
ملتان میں رہنے والے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ انہی دیمک زدہ گھروں میں ایک شکنتلا بھی رہا کرتی تھی، جس کی عقیدے سے ماورا آواز نے ملتان کی چھاؤنی میں بجنے والے کئی جنگی ترانے گائے تھے۔ بہت سے مسلمانوں کے برعکس، جو پہلے مسلمان ہیں اور پھر پاکستانی، ملتان کے تمام ہندو پہلے پاکستانی ہیں اور پھر ہندو۔