قیدی یا اچھوت؟
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل واقعہ پر ازخود نوٹس کیس کی جمعرات کو سماعت کرتے ہوئے، آنے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اعلٰی عدلیہ کو ہدایت کی ہے کہ ملک بھر کی جیلوں کا جائزہ لے کر، قیدیوں کے مسائل حل کیے جائیں۔
پاکستانی جیلوں میں قیدیوں کی بُری حالت سے متعلق متواتر ملنے والی پریشان کُن کہانیوں کی ایک طویل فہرست پہلے سے ہی موجود ہے، جس میں اب زہریلے کھانے کی فراہمی بھی شامل ہوچکی۔
مسائل کی ان کہانیوں میں سب پر غالب، گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی جیلوں میں موجودگی ہے لیکن یہاں معاملہ عملے کی مجموعی نااہلی کا ہے اور اس کے لیے یہ جواز منصفانہ نہیں کہ کم تعداد پر مشتمل جیل عملے کو بڑی تعداد میں قیدیوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔
اس حوالے سے معاشرے کا عمومی رویہ بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ خلاف ورزی یا جُرم پر، قانون کی طرف سے ملنے والی سزا کے باوجود، مجموعی طور پر قیدیوں کو معاشرے میں حقارت کی نظر سے دیکھا اور اُن کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ قیدیوں کو معاشرے کی جس نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی جھلک جیل عملے کے سلوک میں بھی نظر آتی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپ اور خود عدلیہ بھی، طویل عرصے سے جیل اصلاحات کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ جہاں تک قیدیوں کا تعلق ہے تو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے گذشتہ ماہ سب کو یاد دہانی کرائی تھی کہ اس ضمن میں آئین کی شقوں پرایک سطح تک عمل درآمد کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ جون میں، پنجاب کی ایک جیل کے دورے کے بعد، چیف جسٹس نے جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ روا سلوک پر عدم اطمینان ظاہر کیا تھا۔ جناب افتخار چوہدری نے چاروں صوبوں کے سینئر بیروکریٹس کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ اندر کی صورتِ حال پر کڑی نظریں رکھیں اور اس حوالے سے ذاتی طور پر جائزہ لینے کی خاطر وقتاً فوقتاً جیلوں کے دورے بھی کیا کریں۔
ہوسکتا ہے کہ عدالت کے اس واضح حکم سے قیدیوں کی حالتِ زار پر کچھ اثر پڑا ہو لیکن اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے خلوصِ نیت اور تن دہی کےساتھ، متواتر کوششوں کی ضرورت ہے۔
قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی زیادہ تر ذمہ داری عملے پر ہی عائد ہوتی ہے، جس کی روشنی میں طویل عرصے سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں درپیش مسائل کے حل کی خاطر، جیل عملے کی ذمہ داریوں کا ازسرِ نو تعین کیا جائے اور اس حوالے سےقواعد و ضوابط میں ضروری اصلاحات لائی جائیں۔