دو سڑکیں، پانچ نام
آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ کراچی میں دو سڑکیں ایسی ہیں جو پانچ شخصیات سے منسوب ہیں۔ ان شخصیات میں شاعر صوفی بزرگ، مذہبی و روحانی پیشواء اور تقسیم سے قبل کے ایک انگریز کمشنر بھی شامل ہیں۔
آغاز کرتے ہیں پہلی سڑک سے، یہ سڑک صدر کے علاقے میں واقع ہے۔ اس سڑک کے تین الگ الگ نام ہیں جو یہاں پر دکانوں پر لگے بورڈز پر لکھے ہوئے ہیں۔ جن اکابرین یا شخصیات کے ناموں سے یہ سڑک منسوب ہے اگر آپ ان کا نام لے کر اس سڑک کا پتہ کسی سے معلوم کریں تو شاید ہی کوئی آپ کو بتا پائے۔ لیکن اگر آپ زاہد نہاری والے کا معلوم کریں تو صدر تو کیا کراچی کے بیشتر حصوں میں بسنے والے لوگ اس سڑک کا محل وقوع آپ کو آسانی سے بتادیں گے۔ اب اس سڑک کی وجہ شہرت نہاری کی یہ دکان ہے۔
اگرآپ کورنگی کی بس پر سوارہیں تو لکی اسٹار کے قریب ایک سڑک ایمپریس مارکیٹ تک جاتی ہے۔ اس سڑک پر زیادہ تر دکانیں اسلحہ فروخت کرنے والوں کی ہیں۔ دکانوں پر لگے بورڈوں پر دکان کے نام کے ساتھ پتے میں سڑک کا نام "مینسفیلڈ اسٹریٹ" لکھا ہوا ہے۔
محمودہ رضویہ اپنی کتاب 'ملکۂ مشرق' میں مینسفیلڈ کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ وہ 1862ء سے 1866ء تک کمشنر کراچی رہے۔ ان کے دور میں رفاہ عامہ کے بہت سے کام ہوئے۔ کراچی کا امپورٹ یارڈ ان کے نام پر "مینسفیلڈ امپورٹ یارڈ" بنا۔
محمد عثمان دموئی اپنی کتاب "کراچی تاریخ کے آئینے میں" مینسفیلڈ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان کے دور میں کراچی اور انگلینڈ کے درمیان پہلی مرتبہ ٹیلی گرافک رابطہ قائم ہوا اور اسے 1865ء میں عام پبلک کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سہولت سے کراچی میں تجارتی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوا۔
کراچی بندر گاہ نے بھی اس دور میں کافی ترقی کی۔ اسی دور میں کراچی بندر گاہ کو سمندر کی سرکش موجوں سے محفوظ رکھنے کے لیے منوڑہ کے قریب سمندر میں ایک پشتہ تعمیر کیا گیا۔ 1864ء میں کراچی میں سندھ کا پہلا ہائی اسکول قائم ہوا۔ 1865ء میں فرئیر ہال کی تعمیر مکمل ہوئی۔
اس ہال کی تعمیر مسٹر فریئر کے دور میں 1859ء میں شروع ہوئی تھی۔ مگر فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام کی رفتار بہت سست تھی۔ مینسفیلڈ کی کوششوں سے 1865ء میں اس ہال کی تعمیر مکمل ہوگئی۔
مینسفیلڈ اسٹریٹ پر کاروبار کرنے والے بیشتر افراد کا تعلق داؤدی بوہرہ برادری سے ہے۔ اس اسٹریٹ پر ان کی ایک بہت بڑی مسجد بھی ہے جس کا نام طاہری مسجد ہے۔ محمودہ رضویہ اپنی کتاب "ملکۂ مشرق" میں بوہرے کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ ان کے تین فرقے (1) داؤدی بوہرے (2) سلیمانی بوہرے (3) سنی بوہرے، موخرالذکر فرقے سے اکثر نمایاں خاندان وابستہ ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد معدودے چند ہے، بدرالدین طیب جی جسٹس، سراکبر حیدری، حاتم جی، طیب جی جسٹس کراچی اور لقمانی خاندان وغیرہ وغیرہ سنی بوہرے ہیں۔
کراچی میں زیادہ تر داؤدی بوہرے ہیں۔ تمام قوم اپنے داعی سیدنا سیف الدین طاہر کے حکم پر چلتی ہے اور ان کے ارشادات کو ورد زبان رکھتی ہے۔ سیدنا سیف الدین کی طرف سے ’عامل‘ شیخ اور ملّا مقرر ہیں، کافی شائستہ اور مہذب قوم ہے۔ ان کا اپنا بڑا ٹرسٹ ہے۔ اسکاؤٹ، بینڈ اور جماعت خانے موجود ہیں۔
داؤدی بوہروں کا ایک مسافر خانہ فیض حسینی کے نام سے نیپئر روڈ پر ہے۔ ایک جماعت خانہ فرئیر روڈ پر اورایک صدر میں، مدرسہ حسین، اکادمی ہائی اسکول، مورس والا گرل ہائی اسکول اس کے تعلیمی ادارے ہیں۔
مغربی تہذیب سے متاثرچند خاندان EX-COMMUNICATE (خارج ازجماعت) کر دئیے گئے ہیں۔ کروڑ پتی سیٹھ طیب علی مانڈوی والا ہیں۔ شیخاخاندان، علوی خاندان، ٹپال خاندان، سیٹھ موسیٰ بھائی، کریم جی، سیٹھ عبدالحسین، نور بھائی لوٹیا، اور فیروز پور والا، بڑے متمول اشخاص اور خاندان ہیں۔ حسین بھائی بندوق والا بھی صاحب ثروت ہیں۔
اس قوم کے مخیر لوگ رقم اپنی جماعت پر صرف کرنا جانتے ہیں۔ صوم و صلوۃ کے پورے پورے پابند ہیں اور مذہبی تعلیم سے بخوبی واقف ہیں۔ سیدنا طاہر سیف الدین کے بعد سیدنا برہان الدین بوہرہ جماعت کے داعی بنے.
موسیٰ رضا آفندی مارچ 2013 میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ؛
"بوہرہ داؤدی کمیونٹی کے روحانی پیشوا اور بین الاقوامی طور پر ایک انتہائی باوقار سیدنا برہان الدین 102 برس کے ہوچکے ہیں۔ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی بوہری کمیونٹی کے لوگ اس سلسلے میں خوشیاں منارہے ہیں۔ سیدنا برہان الدین نے ساری عمر عبادت الٰہی اور خدمت خلق میں گزاری ہے، ایک فیض عام ہے جو ان کی شخصیت سے جاری ہے اور انشاء اللہ جاری رہے گا۔ بے شمار ممالک نے انھیں اپنے بہترین اعزازات سے نوازا ہے۔ بہت سارے ممالک ان کی عزت اور وقار کے پیش نظر پورا پورا پروٹوکول دیتے ہیں"۔
موجودہ دور میں بوہری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی دو شخصیات نے ممتاز مقام حاصل کیا، ان میں سے ایک فخر الدین جی ابراہیم (فخرو بھائی) جو سابق جسٹس، اٹارنی جنرل، گورنر سندھ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین رہے۔
دوسری شخصیت جسٹس ریٹائرڈ زاہد قربان علوی کی ہے جو سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ بھی رہے ہیں۔ مینسفیلڈ اسٹریٹ کا نام سرکاری ریکارڈ میں اب سیدنا برہان الدین روڈ ہے لیکن اس سڑک پر تقریباً سب ہی دکانوں کے پتے پر مینسفیلڈ اسٹریٹ ہی لکھا ہوا ہے۔ حتٰی کہ طاہری مسجد کے ساتھ منسلک بوہریوں کے ایک شاپنگ سینٹر پر سڑک کا نام سیدنا برہان الدین روڈ اور بریکٹ میں مینسفیلڈ اسٹریٹ لکھا ہوا ہے۔
بوہرہ برادری چونکہ قیام پاکستان سے قبل ہی اس علاقے میں آباد ہے، سڑک کا نام ان کے داعی کے نام سے منسوب ہونے پر وہ خوش تو یقیناً ہوئے ہوں گے لیکن بریکٹ میں مینسفیلڈ اسٹریٹ لکھ کر انہوں نے سیموئیل مینسفیلڈ کی خدمات کا بھی اعتراف کیا ہے۔
لیکن، اس سڑک پر ایک بورڈ اور بھی ہے جس پر مینسفیلڈ اسٹریٹ کے ساتھ شاہ عبدالعلیم صدیقی روڈ بھی لکھا ہوا ہے۔ شاہ عبدالعلیم صدیقی ایک بہت بڑے مذہبی رہنما تھے ان کے بیٹے شاہ احمد نورانی مرحوم نے بھی پاکستانی سیاست میں بڑا نام کمایا۔
سیدنا برہان الدین اور شاہ عبدالعلیم صدیقی میں فرق صرف اتنا ہے کہ سیدنا برھان الدین شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ شاہ عبدالعلیم صدیقی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔
اب چلتے ہیں دوسری سڑک کی جانب یہ سڑک کلفٹن کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ سڑک نام ور فارسی شاعر ابوالقاسم فردوسی کے نام سے منسوب تھی۔ حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی معروف بہ فردوسی دسویں صدی عیسوی، چوتھی صدی ہجری کے نامور اور معروف فارسی شاعر جو 940ء میں ایران کے علاقے خراسان کے ایک شہر طوس کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور 1020ء میں اسی سال کی عمر میں وہیں فوت ہوئے۔ بعض روایات میں آپ کا سال وفات 1025 ء اور عمر پچاسی سال بھی ملتی ہے۔
آپ کا شاہ کار 'شاہ نامہ' ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔ 'شاہ نامہ' جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے میں یا کارنامے بنتا ہے۔ فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو کہ فردوسی نے تقریباً 1000ء میں لکھی۔
اس شعری مجموعہ میں عظیم فارس کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً 60000 سے زائد اشعار پر مشتمل ہے جن میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔
یہ واقعات شاعرانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایرانی تہذیب اور ثقافت میں شاہ نامہ کو اب بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جس کو اہل دانش فارسی ادب میں انتہائی لا جواب ادبی خدمات میں شمار کرتے ہیں۔
ممتاز کالم نگار اور صحافی وسعت اللہ خان نے ہمیں بتایا کہ ایران میں شہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایران میں نصب کیے گئے تمام مجسمے یا تو مسمار کر دئیے گئے یا ہٹا دئیے گئے تھے۔ لیکن فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مجسمہ اب بھی تہران یونیورسٹی میں نصب ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ فردوسی کا مجسمہ روم میں بھی نصب ہے اور ایک چوراہا ان کے نام سے منسوب ہے۔
یہی سڑک سندھ کے صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے نام سے بھی منسوب ہے۔ عبداللہ شاہ غازی کا مزار کلفٹن کے علاقے میں واقع ہے جہاں ہر سال ان کا عرس منایا جاتا ہے۔ "عبداللہ شاہ غازی ڈاٹ کام" پر ان کے حوالے سے دی گئی معلومات کے مطابق آپ حسنی حسینی سید تھے، آپ کی ولادت واقع کربلا کے 28 سال بعد سن 98 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ کی سندھ آمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ تبلیغِ اسلام کے لیے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علومِ خلافت کے نقیب کی حیثیت سے تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ ان کے سندھ میں قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر ملی کہ آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔
145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حضرت سید محمد نفص کو مدینہ میں اور آپ کے چچا کو بصرہ میں قتل کر دیاگیا ہے۔ خلیفہ منصور نے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے۔ مگر آپ کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔ بالآخر عباسی دورِ حکومت کے زمانۂ جنگ میں سن 51ھ میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
یہ تو تھی ان دو شخصیات کے بارے میں معلومات، یہ سڑک کلفٹن کی کوٹھاری پریڈ سے شروع ہوتی ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی اسی سڑک پر واقع ہے۔ فیڈریشن کے دفتر کے عین سامنے سڑک پر ایک سیمنٹ کا بنا ہوا بورڈ لگا ہوا ہے اگر آپ پہلی نظر میں بورڈ پڑھیں تو اس پر عبداللہ شاہ غازی روڈ لکھا ہوا ہے۔ جب کہ غور سے دیکھیں تو اس بورڈ پر شاہراہ فردوسی بھی کندہ ہے۔ یہ کمال صدر ٹاؤن کا ہے۔ سڑکوں پر ناموں کی تبدیلی کی اگر تاریخ مرتب کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ صدر ٹاؤن کا نام نہ صرف سنہرے حروف سے لکھا جائے گا بلکہ شاید پاکستان میں اسے اس حوالے سے پہلا نمبر بھی دیا جائے۔
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen
تبصرے (10) بند ہیں