• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

جنرل راحیل شریف فوج کے تیرھویں سربراہ مقرر

شائع November 27, 2013 اپ ڈیٹ November 28, 2013
نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں۔ فوٹو آن لائن
نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں۔ فوٹو آن لائن
جنرل راحیل شریف 1971ء کی جنگ میں شہید ہونے والے میجر شبیر شریف نشانِ حیدر کے بھائی ہیں۔
جنرل راحیل شریف 1971ء کی جنگ میں شہید ہونے والے میجر شبیر شریف نشانِ حیدر کے بھائی ہیں۔

اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان فوج کے دو اہم ترین عہدوں چیف آف آرمی اسٹاف اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہوں کا تقرر کر دیا ہے۔

لیفٹننٹ جنرل راحیل شریف نئے چیف آف آرمی اسٹاف جبکہ لیفٹینٹ جنرل راشد محمود چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی ہوں گے۔

نواز شریف نے بدھ کو علیحدہ علیحدہ جنرل محمود اور جنرل شریف سے یہاں ایوان وزیراعظم میں ملاقات کی۔

وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ ملاقات میں پیشہ وارانہ امور اور قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر بات چیت ہوئی۔

خیال رہے کہ فوج کے تیرھویں سربراہ اور اب تک جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایولیوایشن لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف 1971ء کی جنگ میں شہید ہونے والے میجر شبیر شریف نشانِ حیدر کے بھائی ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹر میں کمانڈ کی تبدیلی کی تیاریاں جاری ہیں اور وزارت دفاع نے نئی تقرریوں کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی عسکری قیادت کے انتخاب میں موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے مشاورت شامل ہے۔

یاد رہے کہ جنرل کیانی انتیس نومبر کو ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔

آن لائن کے مطابق پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ نے تصدیق کی تھی کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے جانشین کے نام کا اعلان آج کیا جائے گا۔

رانا ثناءاللہ نے بتایا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ ستائیس نومبر کو کریں گے، اس لیے کہ حکومت موجودہ فوجی سربراہ کے اختیارات کو متاثر نہیں کرنا چاہتی ہے۔

جنرل کیانی پہلے ہی یہ واضح کرچکے تھے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع نہیں چاہتے۔

انہیں پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت کی طرف سے تین سال کی توسیع دی گئی تھی، جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔

نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ سینیارٹی کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے، لیکن فوج کے سب سے سینئر جنرل لیفٹننٹ جنرل ہارون اسلم کو دونوں عہدوں کے لیے نظرانداز کردیا گیا، جس کے بعد خیال ہے کہ وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔

پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو فوجی سربراہ کا تقرر جمہوری حکومتوں کے لیے کبھی آسان مرحلہ نہیں رہا۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے 2007ء کے اواخر میں آرمی چیف مقرر کیا تھا۔

فوجی سربراہان کی تاریخ

قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دور میں فوجی سربراہ برطانیہ سےتعلق رکھتے تھے۔ برطانیہ کے سر فرینک والٹر میسروی پاک فوج کے پہلے سربراہ تھے، وہ اگست 1947ء سے فروری 1948ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

پاکستان کے دوسرے فوجی سربراہ جنرل ڈگلس ڈیوی گریسی تھے، جنہوں نے فروری 1948ء سے اپریل 1951ء تک پاک فوجی کی قیادت کی۔

تیسرے آرمی چیف فیلڈ مارشل محمد ایوب خان 17 جنوری 1951 سے 26 اکتوبر 1958 تک (تقریباً ساڑھے 7 سال) اس عہدے پر تعینات رہے۔

پاک فوج کے چوتھے سربراہ جنرل محمد موسیٰ نے 27 اکتوبر 1958 سے 17 ستمبر 1966 تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں۔

جنرل محمد یحییٰ خان ملک کے پانچویں آرمی چیف تھے، جنہوں 18 ستمبر 1966ء سے 20 دسمبر 1971ء تک اپنے فرائض ادا کیے۔

چھٹے آرمی چیف جنرل گل حسن نے22 جنوری 1972ء کو اپنا عہدہ سنبھالا اور 2 مارچ 1972ء تک صرف ڈیڑھ مہینے تک پاک فوج کے سربراہ رہے۔

ساتویں آرمی چیف جنرل ٹکا خان تین مارچ 1972ء سے یکم مارچ 1976ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

ملک کے آٹھویں فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق یکم مارچ 1976ء سے 17 اگست 1988ء تک ساڑھے بارہ سال کے طویل عرصے تک اس منصب پر فائز رہے۔

جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تھا۔

سترہ اگست کو فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاءالحق اور کئی اہم فوجی افسران کی موت کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ 17 اگست 1988ء سے لے کر 16 اگست 1991ء تک پاکستان کے نویں آرمی چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

جنرل آصف نواز جنجوعہ نویں فوجی سربراہ تھے، جنہوں نے 16 گست 1991ء سے آٹھ جنوری 1993ء تک بطور آرمی چیف خدمات انجام دیں۔

دسویں فوجی سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑنے 12 جنوری 1993ء سے 12 جنوری 1996ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

اس دور میں صدرغلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران میں جنرل کاکڑ نے اپنے دور میں مداخلت کی اوردونوں کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔

پاک فوج کے گیارہویں سربراہ جنرل جہانگیر کرامت 12 جنوری1996 سے سات اکتوبر 1998 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جنرل جہانگیر کرامت نے سول حکومت سے اختلافات پر استعفیٰ دیا تھا۔

پاکستان کے بارہویں فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف7 اکتوبر 1998ء سے 28 نومبر2007ء (9 سال) تک اس منصب پر فائز رہے، انہوں نے چیف ایگزیکٹیو اور صدر کے عہدے بھی سنبھالے۔

12 اکتوبر1999 کو پرویز مشرف نے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ پرویز مشرف کے بعد جنرل کیانی نے فوج کی کمان سنبھالی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

raheel Nov 30, 2013 12:40am
’’علامتی لکڑی‘‘ اور مشرف کیانی شریف ملائیشیا کے علاقے ملاکا کے خصوصی درخت سے بنی لکڑی کئی ممالک کے اعلیٰ فوجی افسروں کے یونیفارم کا حصّہ ہے اور کمانڈر کی اتھارٹی اور کنٹرول کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ فوج کا کام ملک کی [اندرونی اور بیرونی] سلامتی کا تحفظ کرنا ہے؛ اس کام کے لئے جس ’’صلاحیت‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اس کے اظہار کے لئے یہ ’’علامتی لکڑی‘‘ [Symbolical Stick] استعمال کی جاتی ہے۔ ریٹائر ہونے والا جنرل اپنے جانشین کو قیادت سونپتے ہوئے اس ’’لکڑی‘‘ کو نئے کمانڈر کے ہاتھ میں دیتا ہے۔ جنرل مشرف نے یہ ’’لکڑی‘‘ ، جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہاتھ میں دی تھی لیکن انہوں نے اس کو ’’اندر‘‘ رکھ کر، رات کے اندھیرے میں شہباز شریف اور چودھری نثار سے خفیہ ملاقاتیں کرکے جمہوریت کے تحفظ کو یقینی بنانا شروع کردیا تھا؛ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جنرل (ریٹأرڈ) اشفاق پرویز کیانی کی زیرِ قیادت پاک فوج کی چھ سالہ ’’بے مثال‘‘ کارکردگی کی وجہ سے جمہوریت محفوظ ہے؛ پہلے زرداری خاندان نے جمہوریت کے ’’فوائد‘‘ سمیٹے تھے اور اب شریف خاندان جمہوریت سے فیضیاب ہورہا ہے۔ جمہوریت کے سائے تلے ملک لُوٹنے والوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اب جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ ’’لکڑی‘‘، جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں دے دی ہے؛ دیکھتے ہیں کہ وہ اس ’’لکڑی‘‘ کو ہاتھ میں رکھ کر ملک کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے یا ’’اندر‘‘ رکھ کر فوج کی’’بے مثال کارکردگی‘‘ جاری رکھتے ہوئے لُٹیرے سیاست دانوں اور صحافتی طوائفوں اور دلالوں سے داد وصول کرتے رہیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024