بنگلہ دیش حکومت کا جنوری میں انتخابات کرانے کا فیصلہ
ڈھاکہ: بنگلہ دیش حکومت نے عام انتخابات جنوری کے اوئل میں کرانے کا اعلان کیا ہے لیکن اسے ملک کی اہم اپوزیشن پارٹی نے مسترد کرتے ہوئےمنگل سے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔اپوزیشن کا اصرار ہے کہ انتخابات کی تاریخ کو مؤخر کیا جائے۔
پیر کے روز سرکاری ٹی وی پر ایک اعلان میں چیف الیکشن کمیشن قاضی رقیب الدین احمد نے تمام جماعتوں پر پارلیمان کی تین سو نشستوں کے لئے انتخابات میں حصہ لینے پر زور دیا ہے، انہوں نے مذید کہا کہ سیاسی حریفوں کے درمیان جھڑپوں کو روکنے کے لئے ملک بھر میں فوج کو تعینات کیا جائے گا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ "انتخابات 5 جنوری کو منعقد کئے جائیں گے۔"
حزب اختلاف کی اٹھارہ جماعتوں کے اتحاد نے فوری طور پر انتخابات کے منصوبے کو مسترد کر تے ہوئے منگل کی صبح سے ملک بھر میں سڑکوں، ریلویز اور آبی گزر گاہوں کو بند رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد شیخ حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے اور انتخابات کی نگرانی کے لئے عبوری حکومت کے قیام کے لئے دباؤ ڈالنا ہے۔
اپوزیشن ترجمان فخر اسلام عالمگیر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم الیکشن شیڈول کو مسترد کرتے ہیں، ہم الیکشن کمشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انتخابی تاریخ کو معطل کیا جائے جب تک کہ حکومت انتخابی تاریخ کے حوالے سے سیاسی اتفاق رائے تک نہ پہنچ جائے۔ کمشنر احمد کا کہنا تھا کہ صدر عبدالحمید کو حسینہ کی عوامی لیگ اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کے درمیان تنازعے کے خاتمہ کے لئے مذاکرات کی ذمہ داری سونپی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیشی صدر کا عہدہ محض نمائشی ہی ہے۔
احمد نے کہا کہ ہم نے صدر سے زاتی طور پر اس نا قابل برداشت تعطل کو ختم کرنے اور خصوصی اقدامات کرنے کے لئے کہا ہے۔ میں نے تمام جماعتوں کو امن اور مصالحت کو برقرار رکھنے اور عوام کی بالا دستی کے لئے کہا ہے۔
گزشتہ ہفتے حسینہ نے نگراں حکومت کا اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا اور انہوں نے مختلف جماعتوں پر مشتمل عبوری کابینہ تشکیل دے دی تھی جس میں ان کے اتحادی شامل تھے۔
انہوں نے حزب اختلاف بی این پی کو کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن اپوزیشن نےدو ٹوک انداز میں انکی کابینہ میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔