• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm

بنگلہ دیش: صحت کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت

شائع November 21, 2013
شدید غربت کے باوجود بنگلہ دیش نے ہندوستان اور پاکستان کے مقابلے میں صحت کے شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ —. فائل فوٹو
شدید غربت کے باوجود بنگلہ دیش نے ہندوستان اور پاکستان کے مقابلے میں صحت کے شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ —. فائل فوٹو

لندن: ریسرچرز نے آج بروز جمعرات اکیس نومبر کو یہ انکشاف کیا کہ غربت کے تمام مسائل ساتھ اور دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہونے کے باوجود بنگلہ دیش نے چالیس برسوں کے دوران بچوں کی دوران پیدائش اموات میں کمی، اوسط عمر میں اضافہ اور بیماریوں پر اچھی طرح قابو پانے کے ساتھ صحت کے شعبے میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔

بنگلہ دیش سے زیادہ تر ایسی ہی خبریں سننے کو ملتی ہیں، جو غربت، قدرتی آفات یا انسانی کمزوریوں کے باعث رونما ہونے والی تباہی سے متعلق ہوتی ہیں، جیسے کہ اپریل کے دوران ایک فیکٹری میں آتشزدگی کے باعث ایک ہزار ایک سو انتیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بنگلہ دیش کے متعلق یہ تفصیلات ایک مطالعاتی جائزے میں بیان ہوئی ہیں، جو آج بروز جمعرات کو ”قابلِ ذکر کامیابیوں کی کہانی“ اور ”عالمی صحت کے عظیم اسرار“ کے عنوان سے شایع کیے گئے ہیں۔

ڈھاکہ کی براک (بی آر اے سی) یونیورسٹی کے پروفیسر مشتاق چودھری جو لینسٹ میڈیکل جرنل میں شایع ہونے والے سلسلہ وار مطالعاتی جائزے کے معاون سربراہ ہیں، نے بتایا کہ ”ماہرین کی نظر میں اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں کے دوران بنگلہ دیش نے اپنے ایشیائی پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں غربت میں کمی اور صحت سے متعلق وسائل میں اضافہ، جو آبادی کی بہتر صحت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں۔“

بنگلہ دیش میں زچگی کے دوران ماؤں کی ہلاکتوں کی شرح میں 1980ء سے پچھتر فیصد کمی آئی ہے، جبکہ پیدائش کے وقت بچوں کی شرح اموات 1990ء کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہے۔

اوسط عمر کی شرح بڑھ کر 68 برس تین مہینے ہوچکی ہے، جو پڑوسی ملک ہندوستان جہاں اوسط عمر 67 برس اور پاکستان جہاں لگ بھگ 66 برس ہے، سے بہت بہتر ہے۔

پروفیسر مشتاق چودھری کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ بنگلہ دیش صحت کے شعبے میں بہت کم خرچ کرتا ہے، لیکن اس کا صحت کا نظام نجی، پبلک سیکٹر اور غیر حکومتی تنظیموں (این جی اوز) کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ بنیادی خدمات مثلاً اسہال کے علاج، خاندانی منصوبہ بندی، وٹامن اے کے سپلیمنٹ کی فراہمی اور ویکسین کے ذریعے تحفظ کی رسائی میں تیزی کے ساتھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

انوکھی مثالیں:

صحت میں کامیابی کی ایک مثال تو ٹی بی یا تپ دق کی بیماری کے سلسلے میں دی جاسکتی ہے، جو متعدی بیماری ہے اور جس کا علاج مشکل سے ہوتا ہے، اسی بیماری کے خلاف ہندوستان کئی سالوں سے بڑی حد تک ناکام جنگ لڑ رہا ہے۔

ریسرچرز کے مطابق بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی تعیناتی کے ذریعے ٹی بی کے علاج کی شرح جو پہلے پچاس فیصد سے کم تھی، اب بڑھ کر نوّے فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

بنگلہ دیش نے مانع حمل ادویات کے استعمال کے فروغ کے لیے خواتین ہیلتھ ورکروں کو بھرتی کیا، جو گھر گھر جاکر خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات فراہم کرتی ہیں، یو ں مانع حمل ادویات کا استعمال 62 فیصد تک پہنچ گیا، اور شرح پیدائش جو 1971ء میں فی عورت چھ اعشاریہ تین تھی، 2010ء میں دو اعشاریہ تین رہ گئی۔ اس شرح کی مثال قریبی ملکوں میں نہیں ملتی۔

مثال کے طور پر پاکستان میں مانع حمل ادویات کا استعمال 35 فیصد تک ہے، اور یہاں شرح پیدائش فی عورت تین اعشاریہ آٹھ ہے۔

ڈھاکہ میں اسہال سے متعلق امراض پر تحقیق کے عالمی مرکز کے پروفیسر عباس بھوئیا نے کہا کہ ”تحقیق کی بنیاد پر اختراعات پر مبنی آزاد ثقافت کے فروغ سے بنگلہ دیش نے رہنما ملک کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔“

لیکن ریسرچرز کا کہنا ہے کہ غربت اور شہری آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ سامنے آنے والے نئے مسائل، مثلاً دائمی اور ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے والی بیماریوں میں یکایک اضافہ ہوا ہے، اور خدشہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے خطرات سے ان کامیابیوں پر اثر پڑے گا۔

عباس بھوئیا نے کہا کہ ”تلخ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ بچوں کی تقریباً نصف تعداد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ آبادی کی ایک تہائی سے زیادہ تعداد (چار کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ) غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور آمدنی میں عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔“

ریسرچرز کا کہنا ہے کہ عوامی صحت کا شعبہ ناقص سازوسامان سے آراستہ ہے اور اس میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ غریبوں کے لیے علاج کی سہولت مفت ہے، لیکن اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی کا سامنا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024