دہشت گردی کیا ہے؟
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ایسی قانون سازی کررہی ہے کہ ریاست کو دہشت گردوں کے تشدد سے نمٹنے میں فیصلہ کن اختیار حاصل ہو- اور باتوں کے علاوہ، اس کے نتیجے میں ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو دہشت گردوں کی تشدد کی دھمکیوں کے خلاف فیصلہ کن اختیارات کے ساتھ کاروائی کرنے کا موقعہ ملے گا- یہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے لیکن ایک ہزار میل لمبے سفر میں محض ایک قدم-
دہشت گردی ایک اختلافی نظریہ ہے جس کی بہترین وضاحت اس قدیم کہاوت سے ہوتی ہے؛
“ایک شخص کا دہشت گرد دوسرے کے نزدیک آزادی کا مجاہد ہے”-
دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف موجود نہیں جس سے سب اتفاق کریں، اور اکثر یہ مسئلہ کہ دہشت گرد کون ہے بعض گروہوں کی غیر قانونی حیثیت اور ان کی سیاست سے جڑجاتا ہے- اسی لیے، دہشت گردی کی ایک فعال تعریف کے بغیر، اگر سیکیورٹی اداروں کو مزید اختیارات دے دیئے جائیں تو ان کا غلط استعمال ہوسکتا ہے-
‘دہشت گرد’ کی اصطلاح کو بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اس کی اہمیت گھٹ جائیگی اور بالاخر یہ اپنا مفہوم کھو بیٹھے گا-
تین بنیادی نظریوں کی مدد سے ہم اس کی زیادہ بامعنی تعریف کرسکتے ہیں-
دہشت پسند ‘پاگل’ نہیں ہیں اور نہ ہی صرف وہی مجبور اور مظلوم ہیں-
عموماً جنھیں نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اصلی ہدف نہیں ہوتے، بلکہ اصلی ہدف تو بچے رہتے ہیں-
دہشت پسند چاہتے ہیں کہ انھیں بہت سے لوگ دیکھیں نہ کہ بہت سے لوگ مر جائیں- یہ لوگ قابل نفرت ہیں- بھتہ خوری، اغوا اور قتل مجرمانہ افعال ہیں، دہشت گردی نہیں-
بہتر آگہی اور وضاحت کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم کراچی اور بلوچستان کے بعض حصوں میں ہونے والے جرائم اور علیحدگی پسندی کا تجزیہ کریں اور انھیں دہشت پسندی کے دائرہ سے باہر رکھیں-
جہاں تک حقیقی خطرے کا تعلق ہے جو کم سے کم ریاست کا نقشہ بدلنا یا پھر اسے بالکل تباہ و برباد کر دینا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی بڑے پیمانے پر ابہام پایا جاتا ہے-
دہشت گردی کے ساتھ ساتھ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینا، عسکریت پسندی، فرقہ وارانہ تشدد اور اقلیتوں کے خلاف تشدد ایک ہی نظریاتی فکر کے مختلف پہلو ہیں- دہشت گردی کی جڑ میں بنیادی مسائل چھپے ہیں جو اپنا جواب مانگتے ہیں-
اسلام کے مطابق ‘مرتد’ کون ہے؟
کیا ریاست کسی شہری یا گروہ کو کافر قرار دے سکتی ہے؟
کیا واقعی کوئی شہری یا گروہ کسی شہری یا گروہ کو کافر قرار دے سکتا ہے؟
اگر ایسا ہوتا ہے تو ریاست کا رد عمل کیا ہونا چاہئیے؟
تکفیری تحریک کیا ہے اور پاکستان جیسی جدید ریاست اس کے تشدد کے عنصر کو کس طرح روک سکتی ہے؟
کیا موجودہ قوانین اور عمل درآمد کا نظام اس کی روک تھام کرنے کے لیئے کافی ہے؟
سلافی آئیڈیالوجی سے کیا مراد ہے اور ہمارے معاشرے میں سلافی کون ہیں؟ ان کا عقیدہ کیا ہے اور وہ کیا تبلیغ کرتے ہیں؟ کیا ان کی مساجد اور مدرسوں کے اعدادوشمار اکٹھا کیئے گئے ہیں؟
القاعدہ کی نظریاتی شکائتیں کیا ہیں اوریہ تنظیم انہیں تشدد کے ذریعہ دور کرنے کا کیا جواز پیش کرتی ہے؟ ان کے اس طرز فکر نے ان عام پاکستانیوں کو جو ابھی تک انتہا پسند نہیں ہوئے ہیں لیکن جو ذرا سی کوشش سے ان کا آلہ کاربن سکتے ہیں، کیوں متاثرکیا ہے؟
پاکستان کی ریاست کو چاہیئے کہ اس بم کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے- ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ میں قدرتی طور پر ایک نظام موجود ہوتا ہے جو اپنی انا کا دفاع کرتا ہے اور تمام حقائق کی نفی کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں دماغ پر اتنا دباؤ پڑتا ہے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتا- اس کیفیت کو ‘انکاری’ (Denial) کیفیت کہتے ہیں-
اپنے اردگرد جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان مسائل پر عوامی اور سیاسی سطح پر جو بحث ہو رہی ہے اس کا معیار بہت پست ہے۔ علمی سطح پر تو ایسی کوئی کوشش نظر ہی نہیں آتی- پارلیمنٹ میں بھی شاذ و نادر ہی انھیں موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ مثلا ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں عسکریت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کا نتیجہ ہیں۔ کوئی فاترالعقل شخص ہی ایسی بات کہہ سکتا ہے- ان دونوں کے درمیان کسی تعلق کا کوئی صاف ثبوت موجود نہیں-
11/ 9 کے بعد دہشت گردی کے اسباب، میکانزم اور اس کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیئے جو کام ہوا ہے اس کی معلومات حاصل کرنے کے لئے میں نے گوگل اسکالر پر”دہشت گردی کے اسباب” ٹائپ کیا- اس کے دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے پہلے آٹھ صفحات کا جائزہ لیں تو آپ کو بہت کچھ مل جائے گا-
تحقیقات کافی گہرائی سے کی گئی ہیں اور جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں کتنے بڑے بڑے نام، اسکالرز، یونیورسٹیاں، دانشور اور تحقیقاتی ادارے، علمی جرائد اور نگارشات شامل ہیں اور پھر آپ ان کا تجزیہ کرتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے کا سارا کام اٹلانٹک کے دونوں طرف مغرب میں ہوا ہے۔
اسرائیل، سنگاپور اور آسٹریلیا میں بھی کچھ رمق نظر آئیگی جبکہ باقی ساری دنیا سو رہی ہے- البتہ مغرب کے تحقیق دانوں کو افسوس ہے کہ اعداد و شمار بکھرے پڑے ہیں اور جنگ زدہ علاقوں سے انھیں حاصل کرنا مشکل ہے۔ یہ کہ ماحول میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے- یہ کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں اور دہشت گردوں کی تنظیمیں پر فریب ہیں اور عوام تک پہنچ کر ان سے بات کرنا کارے دارد- اور اگر تحقیق دان ان تک پہنچ بھی جائیں تو بجائے اس کے کہ وہ ان کی مدد کریں ان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں-
جیسیکا اسٹرن کی کتاب، خدا کے نام پر دہشت: مذہبی عسکریت پسند کیوں قتل کرتے ہیں (Terror in the Name of God: Why Religious Militants Kill) ایک قابل ذکر کتاب ہے- ڈاکٹر اسٹرن ہارورڈ کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں پڑھاتی ہیں اور دہشت گردی کے موضوع کی ممتاز ماہر سمجھی جاتی ہیں- ایک نقاد نے ان کی کتاب کو غیر معمولی قرار دیا ہے کیونکہ وہ ایک تربیت یافتہ عالم سماجیات ہیں جنھوں نے چار سال تک بنیادی اعداد و شمار اکٹھا کئے، جس کے دوران مشتبہ دہشت پسندوں سے بھی ان کے رابطے ہوئے اگرچہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق تھا-
عموما اس قسم کا کام انٹیلیجنس کے اہلکار یا صحافی کرتے ہیں نہ کہ ان کے پایہ کے لوگ- ان کے خیال میں مذہبی دہشت گرد آج کی دنیا میں خطرناک ترین لوگ ہیں- ان کی تصنیف ایک ایسا آئینہ ہے جو ہمیں بہت ہی کم وقت میں معاملہ کی تہہ تک پہنچا دیتا ہے- ہمارے پالیسی سازوں اور سیکیورٹی کے اداروں کو چاہئے کہ اس کا مطالعہ کریں-
دہشت گردی (اور اس کا مقابلہ) کا مطالعہ بہت سے علوم کا موضوع ہے۔ اس کا بڑا حصہ تو علم سیاست سے متعلق ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے جنگی علم، مواصلات، سماجی نفسیات، جرائم اور قانون کےعلوم سے واقفیت ضروری ہے-
ہزار میل کے اس لمبے سفر کے لئے اس سے کہیں زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہے جو اب تک ہو چکی ہے- لیکن فی الحال دہشت گردی کی صحیح تعریف بیان کرنا اگلا اہم قدم ہے۔
ترجمہ: سیدہ صالحہ