• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

راولپنڈی کے بعد

شائع November 20, 2013
اے ایف پی ، فوٹو۔۔
اے ایف پی ، فوٹو۔۔

یومِ عاشور کے موقع پر جمعہ کو راولپنڈی میں ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم کے اثرات ملک بھر میں خطرناک رخ اختیار کرتے جارہے ہیں اور تشدد نے بہر طور کم ہونے سےانکار کردیا ہے۔

کوہاٹ میں پیر کو فرقہ وارانہ تصادم کے بعد ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں اورصورتِ حال پر قابو پانے کے لیے فوج طلب کی جاچکی ہے۔ اگرچہ راولپنڈی میں کرفیو اٹھایا جاچکا لیکن پھر بھی، بالخصوص پرانے شہر میں بدستور تناؤ کی فضا ہے اور شہر میں فوجی دستے گشت کررہے ہیں۔

اگرچہ سنیچرکو تشدد کا مشاہدہ کرنے والے ملتان اور بہاولنگر میں حالات بتدریج معمول پر آرہے ہیں البتہ لاہور میں صورتِ حال بدستور کنارے پہ کھڑی ہے۔

دریں اثنا، پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ کا بیان، جس میں وہ راولپنڈی ہنگامہ آرائی کے الزامات لگانے کے ساتھ آئے، نازک وقت میں ریاستی مشینری کی کمزور رائے سامنے آنے کی کلاسیکی مثال ہے۔

ذرا معاملے کی نزاکت پر غور کیجیے، بالخصوص پنجاب میں، جب لاہور ہائی کورٹ نے تشدد کے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن قائم کردیا تو ایسےمیں وزیرِ موصوف نے جس طرح کے بیانات دیے، ان سے گریز ہی بہتر تھا۔ اس مرحلے پر، تمام جماعتوں کو بڑھتا فرقہ وارانہ تنازعہ کم کرنے کی خاطر، احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

اطلاعات کے مطابق، جمعہ کو ہونے والا تصادم ایک اشتعال انگیز خطبے سے شروع ہوا تھا۔ یہ واقعہ نفرت انگیز مواد پر مبنی خطبات پر بنا کسی امتیاز پابندی کی ضرورت ظاہر کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں مائیکرو فون کے استعمال اور اس کے ذریعے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے کی عمل کی کڑی نگرانی کی جائے۔

یہ درست ہے کہ مختلف فقہوں کے بڑے بڑے علما نے راولپنڈی واقعے کے اثرات محدود رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن ہمسائے میں واقع مساجد کے اماموں کے ہاتھوں میں، نمازیوں کو مشتعل کرنے کی حقیقی قوت موجود ہے۔ یہی اپنے خطبات سے نمازیوں کی سمت متعین کرسکتے ہیں۔

مختلف فقہوں اور مذاہب و عقائد کی کی مذمت پر اُکسانے سے روکنے کا مطلب وہی فرق ہے جو زندگی اور موت کے درمیان ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے عناصر کی سال بھر نگرانی کی جانی چاہیے اور حساس ایّام کے دوران اسے بڑھادینا چاہیے۔

گذشتہ چند روز کے دوران پیش آنے والے یہ افسوسناک واقعات، مذہب اور مختلف فرقوں کی بنیاد پر معاشرے میں دوریاں اور تنہائیاں بڑھنے کا بھی اشارہ ہے۔

اگرچہ طبقات نے تقسیم کی سرحدیں کھینچ دیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ، بظاہر تعلیم یافتہ لوگ عقیدے کے نام پر تشدد سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ مذہبی اور سماجی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ فقہی تناؤ کم کرنے کی کوششیں کریں، اس طرح کی کوششوں میں معاونت کر کے، ریاست تنازعے پر قابو پانے کے لیے ان کی اہلیت کو مزید بہتر بناسکتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، مجموعی طور پر عاشورہ کے ایّام میں امن و امان کی صورتِ حال قابو میں رکھنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن راولپنڈی کو اس سے استثنا حاصل رہا۔ یہاں سے شروع ہونے والا تنازع دوسرے شہروں تک بھی پھیلتا جارہا ہے۔

انصاف اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مفاد میں ضروری ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے کمیشن کو آزادانہ طور پر تحقیقات کرنے دی جائے اور وہ عوام کے سامنے بروقت اپنی رپورٹ پیش کرے۔

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024