ہم نے اس رپورٹ میں 17 خاندانوں، 17 زندہ بچ جانے والے افراد سے بات کی، ریاستی حکام اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں سے مؤقف لیا اور عدالتی ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا۔
اپ ڈیٹ16 دسمبر 202404:47pm
'ہمارے رشتے دار رانگا ماٹی میں رہتے تھے، انہیں ان کے بچوں کے سامنے قتل کردیا گیا۔ رانگا ماٹی کا نام زمین کے لال رنگ کی وجہ سے تھا، یہ مٹی پھر خون سے لال ہوئی'۔
مکلی کی دوسری جنگ سے پہلے کئی سیاہ، ٹھنڈی اور چاندنی راتوں میں دھوکے اور فریب میں کتنے بے گناہوں کی گردنیں کٹیں، کتنوں کے پیٹھ میں کٹار گھونپی گئی اور کتنا ٹھنڈا خون پہاڑوں سے بہہ کر مٹی میں خشک ہوا۔
پاکستان جہاں نگرانی کا عمل سخت ہے لیکن ڈیٹا کی حفاظت کے لیے کوئی قانون نہیں وہاں لوگوں کی پرائیوسی کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے ڈیٹا کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔
ترمیم کے تحت فرقہ وارانہ منافرت، فحش مواد، دہشتگردی کی حوصلہ افزائی، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، عدلیہ یا فوج کےخلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ اور ہتک عزت کو غیر قانونی سمجھا جائے گا۔
تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں ایلون مسک کی جانب سے ٹرمپ کی حمایت سے ایکس پر نسلی تعصب، نفرت انگیز مواد اور فیک نیوز کو فروغ مل سکتا ہے۔
جعلی پولیس مقابلوں کے رجحان کے باوجود ایسی بہت کم مثالیں موجود ہیں کہ جن میں جعلی پولیس مقابلوں کرنے والے پولیس اہلکاروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو۔
'ہم نے مشرف دور میں مظاہرین بالخصوص خواتین پر تشدد نہیں دیکھا لیکن پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ دیکھنا پڑ رہا ہے جس نے جنرل ضیا کے دور کی یاد تازہ کردی ہے'۔
آج جب قاضی فائز عیسیٰ سبکدوش ہو رہے ہیں تو پرانے دوست مخالف بن چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دور میں ایسے مقدمات نمٹائے جن کی سماعت کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ہر 20 میں سے ایک خاتون ویجینسمز کی حالت میں مبتلا ہے جس کے بارے میں کسی کو بتانے میں وہ شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔
اسلام آباد میں فوج کا سامنا کرنے کے حکم کے بعد چند سیاسی مبصرین نے کہا کہ عمران خان اپنے سپورٹرز کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کررہے کیونکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ کے لیے چند لاشیں چاہئیں۔
72 روز اپنے دوستوں کو مرتا ہوا دیکھنے اور پھر انہیں کے گوشت کو کھا کر زندگی کی جدوجہد کرنے والے یوروگوئے کے یہ نوجوان آج بھی ان تلخ یادوں کے کرب سے گزر رہے ہیں۔
10 سال کی عمر میں مانسہرہ کے سراج غلط ٹرین میں سوار ہوکر بھارت پہنچ گئے تھے جہاں اگلی دودہائیوں تک انہوں نے اپنی ایک زندگی بنائی لیکن 22 سال بعد انہیں ڈی پورٹ کرکے اپنے بیوی بچوں سے جدا کردیا گیا۔
اگرچہ ایکسو نامی فرضی سیارے کے تمام کردار جانور ہیں لیکن پڑھنے والے یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کہانی لکھتے وقت مصنف کے دماغ میں حقیقی کردار گردش کررہے ہوں گے۔
قائداعظم کے یہ اقوال آپ کسی عمارت کی دیوار پر آویزاں نہیں دیکھ پائیں گے کیونکہ ہمارے ملک کے بالادست طبقات جس نظام پر متفق ہیں، یہ اقوال اس نظام کی جڑ کاٹتے ہیں۔