نقطہ نظر افسانہ 'سیلن' (آخری قسط) میری ہی طرح سب لوگ، یعنی خون اور گوشت کے بے شمار ریشے مل کر ایک کمبل بن جاتے ہیں جس نے اس شہر کو ڈھانپ رکھا ہے۔
نقطہ نظر افسانہ 'سیلن' (چوتھی قسط) میرے شہر کے لوگ تو لفظوں کے بجائے کاہل اور خواب آلود مگر لچک دار جسموں کی زبان استعمال کرتے ہیں۔
نقطہ نظر افسانہ 'سیلن' (تیسری قسط) ریو میں پھول وافر مل جاتے ہیں۔ کھلے پھول جن پر بارش کی بوندیں برسیں یا آنسو گرتے رہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
نقطہ نظر افسانہ 'سیلن' (دوسری قسط) المیے کی خوبصورتی یہی ہے کہ نزول سے عین پہلے تک اس کا سرے سے پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہ آن کی آن میں گھیر لیتا ہے۔
نقطہ نظر افسانہ 'سیلن' اتنے برس یورپ میں رہنے کے بعد ریو میں پسینے سے شرابور ہوا تو سمجھ آیا کہ وہاں کا سخت موسم مجھے کبھی راس ہی نہیں آیا تھا۔
Zahid Hussain ’طالبانیت اور فرقہ واریت کا گٹھ جوڑ‘: کیا ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ ہار رہے ہیں؟ زاہد حسین