وہ شبِ معراج کی رات تھی جب ہم اس کے گھر داخل ھوئے، شھر بھر کی مسجدیں رنگ برنگے قمقموں سے دلھن کی طرح سجی ھوئی تھیں۔ مگر اسکے گھر میں لگے بلب کی ٹمٹماتی روشنی؛ گھر کو روشن کرنے کے لئیے ناکافی محسوس ہو رہی تھی۔ آج صبا کا ختمِ قرآن تھا، گھر میں بچھی دریاں لپیٹی جا چکی تھیں، اگربتی کی خوشبو ابھی تک پھیلی ہوئی تھی۔
ویسے بھی اس گھر کے اجالے نے دن کی روشنی میں خودکشی کر لی تھی اور اسی قتلِ ناحق کے خاموش احتجاج میں اہل خانہ اپنے حصے میں آئی بے بسی کو اس اندھیرے کے ساتھ جھیلنے پہ مجبور تھے۔ اٹھارہ، انیس سالہ صبا انکے گھر کا وہ چراغِ واحد کہ جسکے دم سے گھر کے گیارہ افراد کی زندگی میں روشنی کی رمق باقی تھی۔
لگ بھگ آٹھ بائے آٹھ کے، بنا کسی جھروکے والے چھوٹے سے کمرے میں وہ اپنے ہی دوپٹے کا پھندہ لگا کر وہ جھول گئی تھی۔ اپنے حصے کا دانہ پانی نہیں، مگر اس دنیا میں اپنے لئیے نگاہ ِ حرمت و احترام ختم ہونے پہ اس نے دنیا سے جانے کی ٹھان لی۔
چھوٹی سی عمر میں اپنے والد کا کمانے والا بازو بنی یہ بچی اتنی کم ہمّت تو کبھی نہیں رہی تھی، کہ یوں زندگی کو لات مار کر کسی سے کوئی شکایت کئیے بغیر اپنے ہی رنگین دوپٹے سے پھانسی کا پھندہ بنا کر اپنے پیاروں کو بلکتا چھوڑ کر چلی جاتی۔
یہ پولیس گردی تھی قانون کا غلط استعمال تھا یا پھر لاقانونینت کی انتہا مگر حقیقتاً اس رات نے ہی صبا کی جان لے لی تھی، جس رات، قریباً نو بجے میرپورخاص پولیس کے دس اہلکار بغیر دروازہ بجائے اس کےگھر گھس آئے تھے۔
صبا مع اہلخانہ، کھانا کھا رھی تھی۔ نوالہ انکے ہاتھ میں ہی ھوگا کہ پولیس وردی اور "اے ایس آئی" والے کندھے پہ لگے پھول نے رفیق ببر کو اتنی ہمّت دی کہ اس نے صبا کو کلائی سے پکڑا اور کہا کہ، "اسکے خلاف اغوا کی ایف آئی آر ہے اس لیئے اس کو گرفتار کرنے آئے ھیں".
جو اپنی عزت کے بھرم میں سانس بھی دنیا سے چھپ کر لیتے ہوں اس کنبے پہ یہ قیامت کا سماں تھا، نوالہ ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا تھا کہ زندگی کا اعتبار چھوٹ گیا۔
والد؛ مقامی ادارے میں سات ہزار کی تنخواہ پر لگا سیکیورٹی گارڈ، اسکی سیاسی و سماجی تعلقات کی کیا اوقات تھی کہ وہ قانون کی وردی پہنے ان دس پولیس اہلکاروں کی ہمراہی میں آئے ہوئے اے ایس آئی سے الجھ پاتا۔ وہ بچارہ تو اتنا گھبرایا کہ وہ اسطرح زبردستی لے جاتی بچی کو کسی صورت روک نہ پایا۔
"خدا اتنی ناانصافی نہیں کر سکتا، میری بچی بے گناھ ھے، اس نے کسی کو اغوا نہیں کرایا"، وہ بے بسی میں اس سے آگے سوچنے کی ہمّت بھی نہیں پا رھا تھا۔
اور یہ اغوا کا کیس بھی کیا کیس تھا، ایک بچی میرپور خاص سے پسند کی شادی کے لیئے گھر سے نکلی مگر بھائیوں نے اپنی جھوٹی غیرت کا بھرم رکھنے کے لیئے کسی اور معصوم بچی کو ایف آئی آر میں ملزم ٹھہرا دیا۔
پچھلی ایک دو دھائی سے پاکستانی معاشرہ جس اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہے اس میں پسند کی شادی یا دیگر اسباب کی وجہ سےگھر چھوڑ جانے والی ہر لڑکی کے لیئے والدین کے دباؤ پر پولیس ایف آئی آر کاٹ کر دوسری بچیوں کو جھنم رلا دینے کا یہ بھی عجیب سلسلہ شروع کر رکھا ھے۔
اغوا کے کیس میں لڑکیوں کا نامزد ہونا نہ صرف پولیس مگر دیگر عوامل کو بھی عزتوں کی ڈسی اکثریت سےکھلواڑ کرنے کا ایسا موقعہ دے دیتا ہے کہ پھر عزت و حرمت سمیت ہر چیز پیسوں میں تلتی چلی جاتی ھے۔
لاکھ کوششوں سے بھی پھر ان غریب کنبوں اور معاشرتی اسٹگما کے شکار گھرانوں میں سماجی وقار کی بحالی ممکن نہیں ہو پاتی۔ لڑکیوں کے اغوائوں کے ان جھوٹے کیسوں میں نامزد بچیوں اور ان کنبوں پہ کیا قیامتیں گزرتی ہیں، کبھی یہ نہیں ہوا کہ وہ کیس، ایف آئی آر جھوٹی ثابت ہونے پر کبھی ان کی قانونی باز پرس ہوئی ہو۔
اس غریب و بدنصیب صبا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ صبا یونی لیور میں ملازمت کرتی تھی اور کوئی بارہ، تیرہ ہزار کما لیا کرتی تھی، اور اس غریب گھرانے میں معاشی طور پہ اپنے والد کا حقیقی بازو بنی ہوئی اور والد اکبر خان کی تنخواہ سات ہزار تھی۔
گیارہ افراد پہ مشتمل یہ کنبہ ان انیس ہزار میں کسمسپرسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور تھا کہ گھر بھی کرائے کا تھا اور ایک چھوڑ کر باقی چھ بچیاں بھی مقامی اسکولوں میں زیرِ تعلیم تھیں۔
گھر کی روزی روٹی میں بڑا حصہ صبا کی تنخواہ کا تھا۔ صبا جو زندگی سے بھرپور، اسکول کے زمانے سے اچھی ایتھلیٹ، تھرو بال کی بہت اچھی کھلاڑی، فٹنس کی سیکنڈ ھینڈ لی گئی واکنگ مشین بھی اسی کمرے میں ابھی تک فولڈ پڑی ھے جس پہ وہ ملازمت کے بعد ایکسرسائیز کی عادی تھی۔ اور یہی مشین اس کے آخری سفر میں بھی یوں مددگار ثابت ھوئی کہ گھر میں پنکھے سے لٹکنے کے لیئے کوئی میز نہیں تھی۔
صبا ابھی سیکنڈ ایئر کے امتحانات دے رہی تھی، تیس مئی کو اسکا آخری پیپر تھا۔ مگر انتیس مئی کو پولیس جھوٹی ایف آئی آر لیئے گھر میں گھس آئی اور اسے پکڑ کر پولیس گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ پولیس میں پرچہ میرپور خاص میں گھر سے شادی کے لیئے نکلنے والی لڑکی عروسہ کے بھائیوں نے کٹوایا تھا کہ عروسہ کے فون سے صبا کے لیئے کال ٹریس ہوئی تھی اور ان کا شک تھا کہ کہیں صبا کو پتہ ہو کہ انکی لڑکی کہاں ھے اور یوں اغوا کا جھوٹا پرچہ درج ھوا۔
پولیس گھر میں آکر انکوائری کر سکتی تھی مگر بے پہنچ گھرانہ دیکھ کر ان کو پیسہ کھانے کی لالچ ہوئی۔ صبا کے والد اکبر خان کی طرف سے تھانیدار محمود آباد، تھانہ میرپورخاص؛ رفیق ببر اور اغوا کے جھوٹے پرچے میں صبا کو نامزد کرنے والے لڑکی کے بھائی، والد اور چچا کے خلاف جو پرچہ کاٹا گیا اس کے مطابق پولیس نے گھر میں گھس کر نہ صرف اس کا موبائل چھینا مگر اسکے پرس سے آٹھ ھزار روپے کی رقم بھی نکال لی۔
اکبرخان، نہ کوئی سیاسی جان پہچان کا سلسلہ، نہ ہی عزت کے مارے پڑوس میں کسی کو مدد کی چیخ و پکار کی ہمّت کے لوگ کیا کہیں گے کہ جس کنبے کی سات پیڑھیوں نے پولیس کا منہ نہ دیکھا ہو آخر کو گھر میں گھس کر پولیس انکی لڑکی کو کیونکر اٹھا کے لے گئی۔
صبا کو اٹھاتے ہی پولیس کو اطلاع مل گئی تھی کہ مبینہ اغوا شدہ لڑکی گھر پہنچ چکی ہے۔ مگر اب لالچ یہ تھی کہ کچھ پیسے کی لین دین ھو۔ والد کو گیارہ بارہ بجے پھر فون آتا ہے کہ پیسوں کا بندوبست کر کے لڑکی کو لے جاؤ۔ کوئی قرض کا گھر سجھائی نہ دیا۔ پٹھان خون والی عجیب روایتی عزت کے مغالطے نے اکبر خان کو کسی قریبی دوست کی مدد لینے سے بھی باز رکھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ساری رات وہ صبا کے فون اٹینڈ کرتا رہا کہ
"بابا مجھے لے جاؤ!"
"اب میری کمر دکھنے لگی ہے"ـ
"بابا یہ پولیس والے گاڑی راستے میں روکے کڑاھی کھانے لیے اترے ھیں۔"
"بابا، یہ پولیس والے ٹھٹھے مار کہ ھنستے ھیں اور تنگ کرتے ھیں"
چونکہ لڑکی گھر واپس آگئی تھی لہٰذا صبا کو تھانے میں رکھنے کا جواز نہیں تھا، اس لیئے بغیر روٹی، پانی اور حاجت کا پوچھے وہ ساری رات حیدرآباد و میرپورخاص کے روڈ پہ پولیس موبائل میں گھماتے رہے۔ تین بار حیدرآباد آئے اور واپس میرپورخاص گئے۔ تیس مئی کی صبح مبینہ اغوا شدہ لڑکی کے بیان کے بعد جس میں انہوں نے اپنی مرضی سے گھر سے نکلنے اور اس میں صبا کے بالکل بے قصور ہونے کا اقرار کیا تو صبا کے والد بچی کو لے کر گھر آئے۔
مگر اب نہ تو افواہوں کا منہ بند کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی محلے کی اٹھی انگلیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ والد دنیا بھر کی مثالیں دیتا رہا کہ بےنظیر بھٹو نے بھی تو جیل کاٹی تھی مگر ایتھلیٹ صبا کی ہمّت ٹوٹ چکی تھی۔ اور اس نے فیصلہ کرنے میں شاید ایک رات کا ہی وقت لیا ھو۔
اکتیس مئی کی صبح دس بجے بہانے سے بابا کو باہر بھیجا کہ چپس کھانے کو دل چاھتا ہے، والدہ دوسرے کمرے میں تھیں۔ چھوٹے سے کمرے میں الماری کے اوپری حصے میں اگربتیاں جل رہی تھیں، قرآن کے سیپارے اور نچلے حصے میں اسکی کتابیں ترتیب سے پڑی تھیں۔ اپنے رنگین دوپٹے کا پھندہ بنایا، پنکھے کےکنڈے سے لٹک گئی۔ کوئی دس منٹ کے اندر ہی دروازہ نہ کھولنے پہ ماں نے ہی کنڈے سے جھولتی بچی کو دیکھا۔ ابھی کچھ سانسیں باقی تھیں، آدھے گھنٹے تک وہ ھلال احمر میں تھی۔
مان جھجھوڑتی رہی کہ "صبا جانے سے پہلے تم نے وقت کا وعدہ صحیح نہیں کیا،" اس نے کیا سنا ہوگا مگر گھر والے بتاتے ہیں کہ ماں کے بینوں پہ اس نے آخری بار آنکھیں کھول کر دیکھا تھا اور پھر موت کی آخری ہچکی۔۔۔
والد کی نوکری چھوٹ گئی ہے، گھر کی روزی روٹی کیسے چلے گی، بیٹوں کے مانند سہارا اور کمانے والا بازو چلا گیا۔ عزت کی دو وقت کی روٹی کے لئیے پاکستان کے ان اکثریتی گھرانوں میں موت مسئلہ نہیں بنتی مگر پیچھے رہ جانے والی زندگی گھسیٹنا حقیقی مسئلہ ہے۔ والد کو نہ انصاف کی توقع ہے نہ روزگار و مالی امداد کی۔ ریاست کس اڑتی چڑیا کا نام ہے انہیں کچھ نہیں معلوم بجھی آواز میں وہ بس اتنا کہہ پائے کہ؛
"لوگ اسکی موت پہ سیاست کرنا چاھتے ہیں، لوگ اور میڈیا ریپ کا قصہ اچھال رہا ہے، مگر میرے لیئے یہ خودکشی نہیں، صبا کا قتل ہے، میں نے اپنی بچی کا کیس ڈال دیا ہے، ایک یہاں کی عدالت ہے، ایک اوپر کی، میں دیکھتا ہوں مجھے کہاں سے انصاف ملتا ہے۔"