اقتدار کی بھول بھلیّاں
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/95522341" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
اقتدار کی بھول بھلیّاں ہیں ہی ایسی کہ اگر کوئی وہاں تک پہنچ بھی گیا تو اس کا صحیح سلامت لوٹنا ایک معجزے سے کم نہیں ہوتا۔
کیا کیا جتن نہیں کرتے لوگ ان بھول بھلیّوں میں جاکر گم ہوجانے کے لیے۔ کیا کیا وعدے نہیں کرتے، کیا کیا قسمیں نہیں دیتے اور لیتے، اور کیا کیا خواب نہیں دکھاتے قوم کو۔
لیکن اپنے خواب پھر بھی چھپائے رکھتے ہیں اور انہیں پورے کرنے سے پہلے کسی کو بھی اس کی بھنک تک نہیں پڑنے دیتے۔ ویسے قوم کو خواب دکھا کر ہی آگے کا راستہ بھی مل پاتا ہے۔ ورنہ تو پوری عمر کسی بد روح کی طرح بھٹکنے میں ہی گذار دیتے ہیں اور اقتدار کی بھول بھلیّوں تک پہنچنے کی نوبت بھی نہیں آتی۔
اور اگر کسی کو اقتدار کی بھول بھلیّوں میں بھٹکنے کی لت پڑ جائے تو وہ تو چُھوٹے نہیں چھٹتی۔ اس قبیل کے لوگ اگر اندر ہوتے ہیں تو باہر آنے کا نام نہیں لیتے اور اگر کسی وجہ سے باہر ہیں تو اندر جانے کے جتن کیے جاتے ہیں۔
یہ جتن تب تک جاری رہتے ہیں کہ جب تک حضرت پھر ان ہی گلیوں میں پہنچ نہیں جاتے۔ اور جو ان کے اور بھول بھلیّوں کے درمیان جدائی کا وقفہ ہو تا ہے۔ اگر کہیں طویل ہو جائے تو وہ بیمار بھی پڑجاتے ہیں یا پھر کسی اور ملک کو سدھار لیتے ہیں کہ یہاں کی راحت سے اگر کسی وجہ سے محروم ہیں تو وہاں کی راحتیں تو ان کے لیے سدا آنکھیں بچھائے رکھتی ہیں۔ ان راحتوں کو وہ نام بھی بھلا سا دیتے ہیں، خود ساختہ جلاوطنی!
یہ جلاوطنی ہی ہے جو اقتدار کی بھول بھلیّوں کا نعم البدل ٹھہرتی ہے۔ باقی اس ملک کے گلی کوچے، گاؤں گوٹھ، نام کے میٹروپولٹن شہر جن میں روڈ راستے بھی آثار قدیمہ کے نمونے دکھائی دیتے ہوں۔
گاؤں کا منہ تو یہ لوگ تب ہی دیکھتے ہیں جب اقتدار کی بھول بھلیّوں تک پہنچنے کے لیے انہیں ٹکے ٹکے کے لوگوں کو سلام بھی کرنا پڑتا ہے تو کبھی کبھی مجبوراً گلے بھی لگانا پڑتا ہے۔
یہ تو کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے برابر میں رہیں اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھیں تو اپنے آپ کو مسجد نبوی میں رہتا پائیں۔ یا پھر وہ جن کو لندن اور دبئی کی گلیاں راس آتی ہیں کہ جہاں کسی ٹارگٹ کلر یا انجانی گولی کے آنے کا امکان بھی نہیں۔ ویسے وہاں بھی وہ پہروں میں ہی پھرتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ان کی حفاظت کے لیے ان کے آگے پیچھے وردی والوں کی گاڑیاں ہمیشہ دوڑتی پھرتی ہیں۔
جو پچھلے پانچ سال جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ وہ اس آسرے پر کہ اب کی بار تو اقتدار کی بھول بھلیّوں کا دیدار نصیب ضرور ہوگا، پھر سے اپنے وطن لوٹ آئے تھے۔ اب اگر کہیں کسی سبب ان بھول بھلیوں تک پہنچنے سے رہ گئے ہیں تو پھر آہستہ آہستہ کوچ کر جائینگے اسی طرف جہاں سے آئے تھے۔
کچھ کو تو اپنی جلاوطنی اتنی پیاری ہے کہ ادھر آنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔ لیکن یہاں اگر پتہ بھی ہلے تو سب سے پہلے انکا ہی بیان پریس اور میڈیا تک پہنچتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ بے چاری پریس کو بھی ان کے بیان سے ہی اطلاع ملی ہے کہ ملک میں کوئی پتہ ہلا بھی ہے۔
اس کو کہتے ہیں جلاوطنی جو آپ کو اپنے وطن کے اتنا قریب لے آتی ہے کہ وطن خود بھی شرمندہ ہی رہتا ہے کہ اس نےاپنے بے وطن بیٹوں کو اپنے آپ سے اتنا دور کیوں رکھا ہوا ہے۔
بہرحال نیشنلٹی آپ جہاں کی بھی لے لیں، لیکن وطن آپ کا پیچھا کہیں بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ کسی بھی ملک میں ہوں، سوتے میں یا جاگتے میں ملک کی ایک ایک خبر سے واقف ہوتے ہیں۔
واقف تو کیا یہاں والوں کو بھی اطلاع وہیں والے دیتے ہیں کہ آپ کے پڑوس میں فساد ہورہا ہے یا گولیاں چل رہی ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں ہم کیوں کر رہے ہیں۔ یہ بے چارے تو وہ لوگ ہیں جونا اقتدار کی ان بھول بھلیّوں سے واقف ہیں نا ہی کبھی جلاوطنی ہی اختیار کی ہے۔ جو لوگ اس قبیل کے ہیں وہ تو اِدھر بھی آرام سے رہتے ہیں تو اُدھر بھی۔
فکر میں صرف وہ گھُلتے ہیں جن کو فکر میں گھُلنے کی عادت ہے۔ باقی تو ملک اسی طرح سے ہی چلتا رہتا ہے، جیسے پہلے بھی چل رہا تھا اور اب بھی چلے گا۔
ویسے اقتدار کی بھول بھلیّوں سے لگاؤ ان کو بھی بہت ہے جنہیں ووٹ تو گھر سے بھی مشکل ملے، لیکن اگر کسی وردی والے کی باری آئے یا پھر کوئی نگران حکومت کی راہ نکل آئے تو اپنے سماجی کام کرنے والے، ٹیکنوکریٹ، کاروباری حضرات یا پھر ادیب صحافی لوگوں کی بھی لاٹری کھل ہی جاتی ہے۔ انہیں بھی اپنی خدمات، سچ بولنے اور لکھنے کی بدولت اقتدار کی بھول بھلیوں کی سیر نصیب ہو ہی جاتی ہے۔ صرف جذبہ سچا ہونا چاہیئے، آپ جہاں اپنے آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر قسمت اور اہلِ اقتدار کی رضامندی بھی شامل ہوتو آپ بغیر جلاوطنی کے بھی اقتدار کی بھول بھلیوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔
الحمدللہ اب کی بار تو جیسے خالی ہاتھ گئے تھے، ویسے ہی خالی ہاتھ لوٹے ہیں۔ ٹرانسفر، ترقیوں اور پوسٹنگس کا ذکر تو ویسے بھی فضول ہے۔ ہم توجو بھی کچھ کرتے ہیں وہ قوم کی خدمت کے جذبے سے ہی کرتے ہیں۔ ہمارا لینے اور دینے سے کیا تعلق، ہم تو ہیں ہی اللہ لوک اور آپ سے زیادہ یہ کون جانتا ہے!
ویسے یہ آپ کی مرضی ہے کہ اپنے آپ کو نئے پاکستان میں پاتے ہیں یا پرانے پاکستان میں۔ ٹوپی بدلنے یا سر پر بال اگانے سے پاکستان تو نہیں بدلتا۔ پہلےتو ویڈیو پیغام کسی خفیہ مقام سےاپنے پیارے اور اچھے طالبان جاری کرتے رہتے تھے۔
اب ویڈیو پیغام شوکت خانم ہاسپیٹل سے بھی جاری ہو رہے ہیں۔ تبدیلی تو آہی رہی ہے اور آہستہ آہستہ ہی آئیگی کہ یہ قوم تو ویسے بھی اچانک تبدیلی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اور جو اقتدار کی بھول بھلیّوں تک پہنچ گئے ہیں اور جو نہیں پہنچ پائے ہیں، ان کا فرق بھی آہستہ آہستہ ہی واضح ہوگا۔ اب اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ تھوڑا تو صبر کریں۔ ابھی تو لوڈشیڈنگ کو ہی بھلا نہیں پائے اور جو بجٹ اپنے ساتھ تحفوں کے انبار لا رہا ہے۔ انہیں قبول کرنے کی بھی کچھ تو ہمت پیدا کرنی ہی پڑے گی۔
باقی یہ بجٹ بھی جو تحفوں کے انبار لیے وارد ہونے کو ہے۔ وہ ان کے لیے نہیں جو اقتدار کی بھول بھلیّوں تک پہنچ گئے ہیں۔ نا ہی ان کے لیے جو جلاوطنی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
یہ تحفے تو آپ کے اور ہمارے لیے ہیں۔ اور انہیں قبول کرنے یا نا کرنے سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو آپ کا اور ہمارا نصیب ہیں، جو کہ آپ کے اور ہمارے نام لکھ دیے گئے ہیں۔ آپ کو ان کو قدم قدم پر شرفِ قبولیت بخشنا پڑے گا۔ جب آپ اسے رب کی رضا سمجھ کر پینسٹھ سالوں سے قبول کرتے ہی آئے ہیں تو اب کیا نظریں چرانا۔
ویسے بھی نظریں وہی چراتے ہیں جن کی نظریں کہیں اور اٹکی ہوتی ہیں۔ اگر آپ کی نظر وطن پر ہی اٹکی ہے تو سب کچھ ایسے ہی قبول کرنا پڑے گا۔ جیسے ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ باقی جن کی نظریں اقتدار کی بھول بھلیّوں میں پھنسی ہیں وہ تو خیال ہو یا خواب، ان ہی گلیوں میں بھٹک رہے ہوتے ہیں۔