اگست کی پہلی
ریل کی سیٹی
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔
سمندری سے آنے والی سڑک اور سر شمیر سے آنے والی ریل گوجرہ میں گلے ملتی ہے۔ یوں تو شہر کے کئی حوالے ہیں مگر ہر حوالہ تاسف سے ہو کر گزرتا ہے۔
تقسیم سے پہلے گوجرہ میں آنکھوں کا ایک بڑا ہسپتال ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پورے ہندوستان میں آنکھوں کے بس تین ہی ڈاکٹر مشہور تھے۔ باقی دو تو بڑے شہروں میں آباد تھے مگر ڈاکٹر ہربھجن سنگھ گوجرہ میں رہتے اور دور پار سے آنے والوں کی بینائی کا سبب کیا کرتے تھے۔
تقسیم ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے بھی سامان باندھ لیا۔ لوگوں نے انہیں بہت روکا مگر اس وطن کی کشش جو لکیر کھینچنے سے بنا تھا، اس وطن سے زیادہ نکلی جس نے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔
کچھ آنکھیں تو جانے والوں کی آزردگی میں رو رو کر اندھی ہو گئیں اور کچھ علاج نہ ملنے کے سبب۔ مگر شائد شہر کے مقدر میں روشنیاں باقی تھیں۔ اسی شہر کا ایک طالب علم نابینا ہونے کے باوجود انگلستان سے بیرسٹری اور کینیڈا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر تاریکیوں سے لڑ رہا ہے۔
ڈاکٹر عامر علی امجد نے بصارت چلے جانے کے بعد جس بصیرت سے اپنے خواب پورے کئے، اب اسی حوصلے سے اندھیری زندگیوں میں روشنیاں بانٹنے کے لئے گوجرہ میں آنکھوں کا بہت بڑا ہسپتال بنا رہے ہیں۔
شہر کی ایک اور شناخت ہاکی کا کھیل ہے۔ کوئی وقت تھا کہ ان گلیوں میں ہاکی کھیلنے والوں کو دنیا رشک کی نگاہ سے دیکھتی، مگر پھر لوگوں کو دلچسپی کے نئے سامان مل گئے اور یہ کھیل پس منظر میں چلا گیا۔ شہر کے کونوں کھدروں میں اب بھی خال خال بچے ٹوٹی کھپچیوں سے پھٹی گیند کا تعاقب کرتے نظر آ تے ہیں۔
شہر کی آخری یاد اگست 2009 کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ سیاہ دن جاتے جاتے اپنے ساتھ تین عورتوں اور ایک بچے سمیت نو لوگوں کی جان لے کر گیا۔ جب اگست کا پہلا سورج غروب ہوا تو اس کے ساتھ ہی امید کے ہزاروں چراغ اور تحفظ کے لاکھوں دئیے بھی بجھ گئے۔ گوجرہ کے مسیحیوں کو پہلی بار لگا کہ شہر کے مقدر میں روشنیاں تو ہیں مگر بینائی نہیں۔
بات کوریاں سے شروع ہوئی جو گوجرہ سے کچھ میل کے فاصلے پہ واقع ہے۔ گاؤں میں آباد عیسائیوں کے ہاں ایک شادی کا اہتمام تھا۔ تقریب کے دوران جب مسلمان مہمان نے تہذیب کی حد پار کی تو اسے محفل سے بھیج دیا گیا۔
تھوڑی دیر بعد گاؤں کے مختلف حصوں سے ایک ہجوم اکٹھا ہونے لگا۔ نکالا گیا مہمان، قران کی بے حرمتی کے الزام اور مشتعل افراد کے ساتھ اس ہجوم کی قیادت کر رہا تھا۔ مظاہرین بضد تھے کہ طالب مسیح نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مقدس اوراق کی بے حرمتی کی تھی۔
اس سے پہلے کہ کوریاں کے عیسائی انجیل سروں پہ بلند کئے، اپنی بے گناہی کا ثبوت دینے ننگے پاؤں گھروں سے باہر آتے، مشتعل افراد نے گھروں اور گرجا کو آگ لگانا شروع کر دی۔
دو دن بعد مقامی مساجد میں امام صاحب نے جمعے کے خطبے کے ذریعے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ گوجرہ سے مسیحی آبادی کو بے دخل کر دیا جائے۔ ریلیاں نکالنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ، عالم اسلام سے بھی مدد کی اپیل کی گئی، جس پہ جھنگ کے مدرسے کے طلبا نے فوراً لبّیک کہا۔
جب مجمع کافی تعداد میں اکٹھا ہو گیا تو ایک سیاسی رہنما نے ہجوم کو مزید اشتعال دلایا اور اس کا رخ عیسائی آبادی کی طرف موڑ دیا۔ یہ سیاسی رہنما جو کرسچن کالونی سے ملحقہ زمین پہ ایک نئی ہاؤسنگ سکیم بنانا چاہتے تھے، اب پارلیمان کا حصہ ہیں۔
موقع پہ موجود پولیس دیر تک تماشا دیکھتی رہی اور آخر میں لوگوں کو جان بچا کر بھاگنے کا مشورہ دیتے ہوئے غائب ہو گئی۔ تب تک بھاگنے کے تمام راستے بھی مسدود ہو چکے تھے۔
پہلے کرسچن کالونی کے گھروں کے سامنے نعرے برسنا شروع ہوئے اور پھر پتھر۔ آہستہ آہستہ نعروں میں شدت اور ہجوم میں جوش بڑھنے لگا۔ پھر کسی نے تکبیر کا نعرہ لگایا اور آگے بڑھ کر ایک گھر کو آگ لگا دی۔ جب آگ پھیلنے لگی تو لوگ گھر چھوڑ کر جان بچانے کو بھاگ پڑے۔
مکان سے اٹھتے ہوئے شعلوں میں یوں تو بہت کچھ جلا مگر ایک ملبے سے حضرت عیسیٰ کی تصویر سیاہ حاشیوں سے چٹخ کر نیچے گر پڑی۔ دراڑ پڑے شیشوں کے نیچے سے تصویر پہ انجیل کی آئت صاف پڑھی جاتی تھی؛
"ان کی خیر مانگ جو تجھے اذیت دیں، خیر مانگ اور برا بھلا مت کہہ"۔
جس گھر سے سات جنازے اٹھے وہاں بچنے والے منہاس حمید کو بس اتنا یاد ہے کہ پہلی گولی اس کے والد کو ماتھے پہ لگی۔ وہ باپ کو لے کر اسپتال کی طرف بھاگا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی واپسی کسی جلے ہوئے کھنڈر میں ہو گی۔
منہاس کے جاتے ہی حملوں میں تیزی آ گئی ۔ گھر والوں کو کچھ سمجھ نہ آئ تو وہ ایک کمرے میں اکٹھے ہو گئے۔ آگ لگی تو جس کمرے میں ان لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی وہی ان کا مرقد بن گیا۔
اس دن تقریبا ساٹھ گھر راکھ ہوئے۔ نقاب پوش افراد موبائل فون پہ ہدایات لیتے اور پٹرول سے ان گھروں کو آگ لگاتے جاتے تھے جنہیں بناتے بناتے ان مظلوموں کی ایک سے زیادہ نسلوں نے محنت کی تھی۔
جلانے والے تو خیر نامعلوم افراد تھے ہی، عجیب بات یہ ہے کہ بند گھروں کے جھلسے ہوئے چہروں پہ بھی کسی اور کا گمان ہوتا تھا۔ میں نے قریب سے دیکھا تو ان فریادی شکلوں میں عجیب عکس نظر آئے۔
مجھے لگا کہ یہ کملائی ہوئی لاش پچاس سالہ حمید مسیح کی نہیں بلکہ لال دین شرف سرگودھوی کی ہے جنہوں نے مشن اسپتال کوئٹہ کے سامنے قائد اعظم کی سواری روک کر اقلیتوں کے حقوق منوائے تھے۔
40 سالہ اخلاص مسیح کے مڑے تڑے وجود میں مجھے خانیوال کا سپاہی مراد مسیح نظر آیا جو 18 مئی 2013 کو متنیٰ میں شدت پسندوں سے لڑتا ہوا شہید ہوا تھا۔ بیس سالہ وہ لاش مجھے آسیہ بی بی کی نہیں بلکہ سسٹر مارتھا کی لگی جو ہمیں تو عیدی دیا کرتی مگر ہم سے کرسمس کی مبارکباد کی توقع نہ رکھتی تھی۔
22 سالہ امامیہ بی بی کی بجائے تابوت میں اس صفیہ کا جسم پڑا تھا، جو میرے بچپن کا حصہ تھی۔ میں ہمیشہ صفیہ کو اس کی سیاہ رنگت کا طعنہ دیتا مگر وہ خندہ پیشانی سے مسکراتی رہتی اور مجھے کھانا کھلا کر گھر جاتی۔
گوجرہ کی ماتم کرتی خواتین کا ہر چہرہ جانا پہچانا تھا، یہ وہ عورتیں تھیں، جو ہر روز اپنا مذہب، باہر بجلی کے میٹر والے خانے میں تام چینی کے برتنوں کے ساتھ رکھ کر ہمارے گھروں میں داخل ہوتیں اور ہمارے نصف ایمان کا بندوبست کرتیں۔
بے گھر ہونے والے افراد میں کوئی جسٹس اے آر کارنیلییس تھا تو ملبے میں سے صاف اینٹیں اکٹھی کرنے والا کوئی سیسل چوہدری۔ تابوتوں کے دامن میں ہاتھوں کی زنجیر باندھے یہ سب لوگ وہ تھے جنہوں نے اپنی محنت سے ہمارے سکولوں کی لائبریریاں بھی سنبھالی تھیں اور ہمارے گھر وں کے باغیچے بھی سنوارے تھے۔
دو دن بعد جب آگ کی تپش باہر کی دنیا سے گھوم کر اسلام آباد پہنچی تو پولیس نے چھاپے بھی مارے اور گرفتاریاں بھی کیں۔ ایک انکوائری تشکیل دی گئی جس کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق مقدس اوراق کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہ آیا تھا۔ ان گھروں اور عبادت گاہوں کو آگ لگانے والے ان صحابہ کے سپاہی تھے جن میں حضرت محمد کی نبوّت کی تصدیق کرنے والے واحد عیسائی ورقہ بن نوفل کا نام بھی آتا ہے۔
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/95196067" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]