مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نواز شریف تیرہ سال، سات ماہ اور اٹھارہ دن بعد بطور رکن اسمبلی قومی اسمبلی پہنچ گئے ہیں۔ وہ ناصرف اسمبلی کے رکن کی حثیت سے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئے بلکہ اپنی پارٹی کی کامیابی کے بعد تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بن کر تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں۔
اپنے بتیس سالہ سیاسی سفر میں انہوں نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اقتدار کی چاشنی سے لطف اندوز ہوئے، عجلت میں اٹھائے گئے فیصلوں کی وجہ سے کال کوٹھڑی کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ آٹھ سال جلا وطن بھی رہے۔
میاں نوازشریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1981ء میں کیا، جب وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1985ء میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر پہنچے۔ 1990ء میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے۔ یہاں سے شروع ہوا سانپ اور سیڑھی کا وہ کھیل جس میں کبھی نواز شریف کا پلڑا بھاری رہا تو کبھی اُنہیں شدید ترین ذہنی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1993ء میں اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑدیں۔ سپریم کورٹ سے حکومت کی بحالی کے باوجود اِسی سال نواز شریف کو استعفیٰ دینا پڑا۔ 1997ء میں بھاری مینڈیٹ سے بنائی جانے والی حکومت 1999ء میں پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کی نذر ہوگئی۔ طیارہ ہائی جیکنگ سمیت سنگین مقدمات میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، مگر عالمی طاقتوں کی مدد سے جان بخشی ہوئی اور 2000ء میں نواز شریف جلاوطن کردیے گئے۔ 2004ء میں اپنے والد میاں محمد شریف کے انتقال پر بھی وطن آنے کی اجازت نہیں ملی۔
بالآخر قسمت مہربان ہوئی تو پچیس نومبر 2007ء کو لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا۔ 2008ء کے انتخابات میں نواز شریف حکومت کے اتحادی بنے لیکن یہ ساتھ زیادہ دیر چل نہیں سکا۔
آج تیرہ سال، سات ماہ اور اٹھارہ دن بعد میاں نوازشریف بطور رکن اسمبلی پارلیمنٹ میں ناصرف داخل ہورہے ہیں بلکہ تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بھی بننے جارہے ہیں، تو عوام، سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں سمیت سب ہی کی نظریں میاں نواز شریف کے طرزِ حکومت پر مرکوز ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ نوازشریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے چودہ ماہ، ساڑھے گیارہ سال کی جلاوطنی اور ساڑھے پانچ سال کی سیاسی جدوجہد سے خوب سبق سیکھ چکے ہوں گے اور آئندہ سیاسی بساط پر پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے۔
نواز شریف تیسری مرتبہ حکومت سنبھالنے جارہے ہیں، لیکن اس مرتبہ اقتدار ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوگا۔ مسائل کا ایک طویل سلسلہ ہے جو آنے والی حکومت کا منتظر ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ کو زیادہ ووٹ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر ملے ہیں۔ اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے توانائی کا بحران ختم کرنا یقیناً مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوگا۔
ڈان نیوز کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ توانائی بحران کے داخلی مسئلے کا دریا پار کرنے پر مسلم لیگ نون کو خارجی محاذ پر ڈرون حملوں کے ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑے گا، ماہرین کے مطابق یہ دریا عبور کرنے کے لیے تدبر، دوراندیشی، متانت اور سنجیدگی سے کام لینا ہوگا۔
مسائل کا جم غفیر اپنی جگہ مگر بہت سے ماہرین پُر امید ہیں کہ اگر میاں نواز شریف اچھی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترے اور میرٹ اور قانون کی عملدراری کو یقینی بنالیا تو ان تمام چیلنجز سے بنرد آزما ہونا آسان ہوجائے گا۔
پاکستان میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے سیاستدانوں کے نام اور ان کی مدت وزارت:
لیاقت علی خان 1947 سے 1951
خواجہ ناظم الدین 1951 سے 1953
محمد علی بوگرہ 1953 سے 1955
چوہدری محمد علی 1955 سے 1956
حسین شہید سہروردی 1956 سے 1957
ابراہیم اسماعیل چندریگر 1957 سے 1957
ملک فیروز خان نون 1957 سے 1958
نورالامین 1971 سے 1971
ذوالفقار علی بھٹو 1973 سے 1977
محمد خان جونیجو 1985 سے 1988
بینظیر بھٹو 1988 سے 1990
غلام مصطفٰے خان جتوئی (نگراں وزیراعظم) 1990 سے 1990
میاں محمد نواز شریف 1990 سے 1993
میر بلخ شیر مزاری (نگراں وزیراعظم) 1993 سے 1993
میاں محمد نواز شریف 1993 سے 1993
معین قریشی (نگراں وزیراعظم) 1993 سے 1993
بینظیر بھٹو 1993 سے 1996
ملک معراج خالد (نگراں وزیراعظم) 1996 سے 1997
میاں محمد نواز شریف 1997 سے 1999
میر ظفر اللہ خان جمالی 2002 سے 2004
چوہدری شجاعت حسین 2004 سے 2004
شوکت عزیز 2004 سے 2007
محمد میاں سومرو ( نگراں وزیراعظم) 2007 سے 2008
سید یوسف رضا گیلانی 2008 سے 2012
راجہ پرویز اشرف 2012 سے 2013