نقطہ نظر

طاقت اور سفارتکاری

سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے فوجی وسائل کا استعمال ایک عرصے سے بحث طلب مسئلہ رہا ہے۔

یو ایس اے کو اب سفارتکاری اور طاقت کے استعمال پر قدیم سچائیوں کا ادراک ہونا شروع ہو گیا ہے.

اگر سفارتکاری طاقت کا استعمال کے بنا کمزور ہوجاتی ہے تو بلاجواز طاقت کا استعمال بھی تباہ کن ہوتا ہے. یہ سیاستدانی کا یہ کام ہوتا ہے کے دونوں کو باہم یکجا کرے اور ایسے نتائج برآمد کرے جو پائیدار ہوں اور یہ دونوں جانب کسی نقصان کی وجہ نہ بنے.

اور کوئی نہیں، 12 جون، 2009 کو اس وقت کے چیئرمین، جائنٹ چیف آف اسٹاف، ایڈمرل مائک مولن نے کہا "سیاسی مقاصد کا حصول کے لئے فوجی وسائل کا استعمال ایک عرصے سے بحث طلب مسلہ رہا ہے اور ایسا 1775 کی سردیوں میں شروع ہوا، جب ایڈمنڈ برک نے، پارلیمنٹ سے خطاب کیا تب امریکی بغاوت کو کچلنے کے لئے آرمی اور نیوی کو بھیجے جانے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا.

" اگر برک کے ہم عصروں نے اس کی بات سن لی ہوتی تو آج شاید سمندر پار حالات مختلف ہوتے، لیکن آج کے بارے میں کیا ؟"

انہوں نے یہ سب نہ کہا ہوتا اگر انہوں نے امریکی پالیسی میں بنیادی خامی نہ دیکھی ہوتی.

22 مارچ، 1775 کو ایوان عام میں کی گئی ایڈمنڈ برک کی تقریر حیرت انگیز طور پر موجودہ زمانے سے مطابقت رکھتی ہے. " طاقت کا اکیلے استعمال فقط عارضی ہے، یہ وقتی طور پر تو غالب آجاۓ گی، لیکن اس سے دوبارہ زیر کرنے کی ضرورت ختم نہیں ہوگی، ایک قوم پر حکمرانی نہیں کی جاسکتی جسکو ہمیشہ زیر کیا جاتا رہے. میرا اگلا اعتراض اسکی غیر یقینی ہے، طاقت ہمیشہ خوف پیدا نہیں ہوتا، اور ہتھیار سے کبھی فتح نہیں ہوتی. اگر آپ کامیاب نہیں ہو رہے اسکا مطلب آپ کے پاس وسائل کی کمی ہے. اگر مصالحت ناکام ہو جاۓ تو طاقت باقی رہتی ہے، لیکن اگر طاقت ناکام ہو جاۓ تو دوبارہ مصالحت کی گنجائش نہیں رہتی.

"طاقت کے استعمال پر ایک اور اعتراض جو مجھے ہے وہ یہ کہ آپ جس چیزکی حفاظت کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اسی کو کمزور بنا دیتے ہیں." یہ افغانستان ، عراق اور لیبیا میں یو ایس اے کی جنگ کے نتائج کی غیر منصفانہ وضاحت نہیں ہے.

ایک اور حقیقت پسند، عملی شخصیت، ایم آئ فائیو کی ڈائریکٹر جنرل اسٹیلا ریمینگٹن نے2008 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کہا کہ 9/11 کا جواب "ایک ضرورت سے زیادہ بڑا ردعمل" تھا، اور یہ جیسا کہ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایک اور دہشتگردی کا واقعہ تھا.

ژبگنیؤ برزنسکی نے بھی کہا کہ افغانستان کی طرف سے جنگی عمل نہیں تھا. کابل میں برطانیہ کے سابق سفیر شیرارڈ کوپر -کولز یاد کرتے ہیں کہ "وہ حیرت اور خوف جس کے ساتھ طالبان اور بہت سے افغانیوں نے نیویارک اور واشنگٹن پر حملے کی خبر کو سنا تھا."

ایک افغان محب وطن نے انہیں شوری (بڑوں کی مجلس) کے بارے میں بتایا جہاں امریکا کے مطالبات پر بحث کی جا رہی تھی.

اسے اس بات کا یقین تھا کہ ان مباحثوں کا رخ اسامہ بن لادن کو نکال باہر کرنے کے حق میں ہے، مصلحتاً (طالبان حکومت کی بقا ) اور انصاف ( اس بات پر کہ اسامہ بن لادن نے مہمان نوازی کا غلط استعمال کیا ) دونوں کی بنیاد پر.

لیکن اس رخ کو اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وقت درکار تھا جب کہ مغربی حکومتیں اپنے بے رحمانہ انتقام کی تیاری کے بیٹھی تھیں. چناچہ ایک تباہ کن جنگ ہوئی.

نیشنل سیکورٹی آرکائیو کی طرف سے طالبان پر موجود فائل کی دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ملا عمر ہمیشہ گفت و شنید کرنا چاہتے تھے،9/11 کے بعد بھی.

2013 میں یو ایس اے کو ملا عمر کے تعاون کی شدّت سے ضرورت تھی تاکہ افغانستان سے عزت کے ساتھ نکل سکے.

بلکل یہی کہانی عراق میں ہوئی جہاں بڑے پیمانے پر تباہ کن ہتھیار موجود ہی نہیں تھے. اور لیبیا میں بھی کوئی کامیابی نہیں ہوئی. ایک ممتاز دانشور ولی نصر نے، جنہوں نے حال ہی میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو چھوڑا ہے، دی ٹائمز کے مائیکل کرولی کو بتایا کہ "ہم بھول گۓ کہ لیبیا ٹھیک ثابت نہیں ہوا."

شام میں بھی یہی المناک واقعہ دہرایا گیا جس میں انسانی جانوں کا زیاں، املاک کی تباہی، اور اس عظیم، تاریخی سرزمین کی وراثتی ڈھانچے شامل ہیں. پچھلے مہینے شام میں یو ایس اے کے سفیر رابرٹ ایس فورڈ نے عوامی سطح پر یہ متنبہ کیا کہ "سیاسی تصفیے کے لئے گفت و شنید کی ضرورت ہے، کیوں کہ ہمیں اندازہ ہے کہ حکومت کے حمایتی، موت کے ڈر سے، مرتے دم تک لڑتے رہیں گے."

وہ 11 اپریل کو سینیٹ فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے گواہی دے رہے تھے. اور ٹھیک اسی دن ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس نے اپنا جائزہ پیش کیا. جیمز آرکوپر جونیئر نے اس بات پر متنبہ کیا کہ اگر صدربشار الاسد کی حکومت گر بھی گئی تو، ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک ملک فرقہ وارانہ لڑائیوں میں گھرا رہے گا، بنیاد پرست طاقتیں بھی فسادات میں شامل ہو جائیں گی اور شام مکمل طور پر تباہ ہو جاۓ گا."

ان چاروں ممالک --- افغانستان، شام، لیبیا اور عراق میں ایک بات مشترک ہے کہ یہاں مصلحت کے بجاۓ طاقت کا استعمال کیا گیا. وجہ بلکل سادہ ہے، ان چاروں ممالک میں حکومت تبدیل ہو گئی جو امریکا کی خواہش تھی. "قذافی کو جانا ہی پڑے گ ا" صدر بارک اباما نے بڑے غرور کے ساتھ اسکا اعلان کیا تھا.

ایران ایک علاقائی کھلاڑی ہے جس کا تعاون افغانستان اور شام میں تصفیے کے لئے ضروری ہے. اس نے 2005 میں بڑے سمجھوتے کے لئے اپنی جامع تجاویز بھیجی تھیں، جن میں ایک تو یہ کہ اسکو نظرانداز نہ کیا جاۓ، دوسرے اس کے نیوکلیئر پروگرام پر جو جھگڑا چل رہا ہے اسے حل کیا جاۓ. وہ سوئس سفیر جو ان تجاویز کو لے کر آۓ تھے انکی اس زحمت پر سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزا رائس نے ان کی بے عزتی کی.

یہی نمونہ مشرق بعید میں بھی دہرایا جا رہا ہے. ایران کی طرح، شمالی کوریا بھی، مذکرات کے آغاز کے لئے امریکی پابندیوں کو اٹھانے، امریکی تعاون جیسے جائز مطالبے کر رہا ہے.

اس سارے عمل میں اقوام متحدہ سب سے زیادہ متاثر ہوئی کیوں کہ اسے امریکی پالیسیوں کی تشہیر کے لئے استعمال یہ جاتا رہا ہے. عالمی قوانین کی بڑے منظم طریقے سے تضحیک کی گئی ہے، جیسا کہ ایک ممتاز بین الاقوامی وکیل فلپ سینڈس، کیو سی اور یونیورسٹی کالج کے پروفیسر آف لاء نے اپنی تحریر "لاء لیس ورلڈ- امریکا اینڈ دی میکنگ اینڈ بریکنگ آف رولز" میں لکھتے ہیں.

طاقت کی حمایت یا پالیسی کے اہم وسیلے کے طور پر اس سے رجوع کرنا پچھلی دہائی اور اس سے بھی پہلے سے چار قومی ریاستوں میں صرف مکمل تباہی لایا ہے. مشہور پالش صحافی ریسزارڈ کاپنسکی کا تیس سال پرانا تبصرہ، آج ہم جو بربادی دیکھ رہے ہیں اسکا خلاصہ ہے.

"جب کہیں بھی آمریت کا خاتمے کا سوچا جاۓ، تو کسی کو اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے کہ پورا نظام ایک برے خواب کی طرح ختم ہو جاۓ گا. ایک آمرانہ نظام، اپنے پیچھے خالی اور بنجر میدان چھوڑ کے جاتا ہے جس پر غور و فکر کا درخت اگنے میں وقت لگتا ہے. اور ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ جو لوگ پردے سے باہر آئیں بہترین لوگ ہوں."


ترجمہ: ناہید اسرار

اے جی نورانی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔