کہتے ہیں کہ کبھی صحرائے تھر کی دھرتی پر دریائے ہاکڑہ بہتا تھا اور اس دشت پر چلنے والی شام کی سہانی ہواؤں میں سندھو دریا کی نمی گھلی ہوتی تھی۔ اسی سرزمین پر آج کے عمر کوٹ اور تب کے اَمر کوٹ میں جلال الدین محمد اکبر کا جنم ہوا جو تاریخ میں مہابلی کہلایا۔
روایت ہے کہ اپنے والد شہنشاہ ہمایوں کے بعد تختِ ہِند پر بیٹھنے والے اکبرکی دنیاوی تعلیم واجبی تھی۔ اس کی وجہ وہ دور تھا جب اسے مدرسے اوراتالیق کے بجائے بچپن چچا کی قید میں گذارنا پڑا تھا۔ شہنشاہ روایتی تعلیم تو حاصل نہ کرسکا البتہ اسے دنیا بھر کے مذاہب، روایتوں اور انجان چیزوں کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔
اسی شوق میں مہابلی نے ایک بہت بڑا کُتب خانہ بھی بنوایا۔ کہتے ہیں کہ اس میں پانچ ہزار سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔ شہنشاہ اکثر کتب خانے میں آکر بیٹھتا اور منتظمِ خاص سے ان کتابوں کے بارے میں پوچھتا رہتا اور جس کا احوال دلچسپ لگتا، اُسے پڑھوا کر سُنتا تھا۔ دربار میں عالم فاضل لوگوں کی اکثریت منصبوں پر فائز تھی۔
ایک دن اکبر کے دربار میں متعدد عالم فاضل بیٹھے تھے۔ اچانک بحث کا موضوع زمین پر موجودان چیزوں کی طرف مُڑ گیا، جن کی حقیقت اب تک اَسرار کے پردوں میں پنہاں تھی۔ بحث مزیدار تھی، طول پکڑتی گئی اور پھر اچانک گنگا کا ذکر چل نکلا۔ کسی مصاحب نے کہا کہ گنگا بھی ایسا ہی اسرار ہے کہ جس کےمتعلق کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے چلتی ہے۔
یہ سن کر مہابلی بولے کہ ہندو سادھو اور رشی تو بتاتے ہیں گنگا میّا کہاں سے چلتی ہے تو ایک مصاحب نے جواب دیا کہ زیادہ تر باتیں سُنی سنائی پر مبنی ہیں، ٹھوس حقیت موجود نہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج تک علمی سطح پر یہ نہیں جانا جاسکا کہ گنگا ندی شروع کہاں سے ہوتی ہے؟ مہابلی نے یہ کہا تو سب دربایوں نے تائید کی۔ شہنشاہ کچھ دیر خاموش ہا اور پھر لمحوں میں تاریخ کا ایک انتہائی اہم فیصلہ ہوا۔ 'ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ گنگا کہاں سے نکلتی ہے، اس کا منبع کیا ہے؟'
شہنشاہ کے حکم پر بہت جلد عمل شروع ہوگیا۔ محققین ،علم اُلارض کے ماہرین اور مہم جوؤں کو جمع کیا گیا اور انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی وہ گنگا میّا کے منبع کا پتا چلائیں اور معلوم کریں کہ اس کے سُوتے کہاں سے پھوٹ رہے ہیں؟
مورخین لکھتے ہیں کہ شمالی ہِند کے وسیع ترین حصے پر پندرہ سو چھپّن سے سولہ سو چھ عیسوی تک نہایت شان و شوکت سے حکمرانی کرنے والایہ نیم خواندہ شہنشاہ برِ صغیر کی تاریخ کا پہلا حکمران ہے جس نے اپنی سلطنت کے عظیم ترین دریاؤں کے منبع کے بارے میں جاننے کے لیے باقاعدہ طور پر تحقیق کا آغاز کرایا تھا۔
اکبر کے اُس زمانے میں، ہندوستان میں ایک یورپی آوارہ گرد اور مہم جو نکولو مانیوسی بھی حیات تھے۔ موصوف طب پر بھی خاصی دسترس رکھتے تھے اور جسم میں خون کی نالیوں کے نظام سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ جب برسوں پہلے ہندوستان پہنچے تو طبِ مشرق نے ان کے پاؤں جکڑ لیے اور وہ یہیں کے ہورہے۔
لگن سچی تھی، طب سے محبت تھی۔ جب آوارہ گردی اور جہاں نوردی کو چھوڑ کر صرف طب کے ہورہے توان کی شہرت بھی خوب پھیلی۔ جس وقت شہنشاہ نے دریا کے منبع کو جاننے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا، اُس وقت یہ ذاتِ گرامی مغل دربار سے وابستہ تھے۔
نکولو اپنے الفاظوں میں یہ کہانی کچھ یوں بیان کرگئے ہیں:
'اکبر سے بھی مدتوں پہلے ہندوستان کے بعض لوگ اس پر دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ گنگا، بہت دور انتہائی شمال کے بُلند و بالا اور برف سے ڈھکی چوٹیوں والے پہاڑوں میں گئو ماتا کے سر سے جنم لے کر ہمارے میدانوں تک پہنچتی ہے۔ گنگا کے سُوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں، اس بارے میں البتہ لوگوں کو مصدقہ طور پر کچھ علم نہیں تھا۔ گنگا، جو شہنشاہِ ہِند کے تاج کا سب سے درخشندہ ہیرا ہے۔'
شہنشاہ کے حکم کے مطابق اُس وقت کے ممتاز ماہرینِ ارضیات اور مہم جوؤں پر مشتمل مہماتی گروہ کے ذمے کام تھا کے وہ گنگا کے بہاؤ کی مخالف سمت میں، کنارے کنارے شمال کے رُخ پر سفر کریں اور اس کے حقیقی منبع کا پتا چلا کر واپس لوٹیں۔
یہ مہم جو جب منزلوں پر منزلیں مارتے، دشوار گزار جنگلوں، تنگ گھاٹیوں اور سر بہ فلک پہاڑوں کو عبورکرتے ہوئے آج دنیا کی چھت کہلانے والے تِبّت کے پہاڑوں کے دامن میں پہنچے تو انہوں نے ایک بہت بڑا پہاڑ دیکھا جو گائے کے ایک بہت ہی بڑے سر کی مانند تھا۔
گائے کے سر جیسی چٹان کے بڑے دہانے میں سے شفاف پانی تیزی سے بہتا ہوا آرہا تھا اورنیچے اس جگہ گر رہا تھا جہاں سے وہ دریا کی شکل میں بہتا ہوا شمالی ہِند کے میدانی علاقوں تک پہنچے تو متبرک جل کہلاتا ہے۔۔۔ گنگا جَل۔
اکبر اعظم کے حکم پر شروع کی جانے والی یہ پہلی مہم تھی جو ہمالیہ کے وسیلۂ آب کی تحقیق کے لیے گئی۔ شہنشاہ ہند کی ٹیم فاتح لوٹی، لیکن کیا وہ اس مقام سے آگاہ تھے جہاں سے صرف گنگا ہی نہیں، کئی اور عظیم دریا برِ صغیر کے سینے پر بہنے کے لیے اپنا سفر شروع کرتے ہیں اور دھرتی کو سیراب کرکے اسے سرسبز و شادابی کا لِبادہ پہناتے ہیں۔
اس سوال کا جواب اور بلاگ سے جُڑا دوسرا حصہ آئندہ قصے میں...