کیباہ کو جب سانس میں دقت کی وجہ سے ہسپتال لایا گیا تو اس وقت اس کی عمر صرف تین ماہ تھی ۔ اس کی سانس کی نالی ٹریکیا کو نکال لیا گیا تھا۔ اور اسے سانس لینے کی مشین پر رکھا گیا تھا۔
یونیورسٹی آف مشی گن این آربر کے سی ایس موٹ چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر گلین گرین نے کہا کہ اب یہ بچہ بہت صحتمند ہے۔
اس اہم کارنامے کی تفصیل جمعرات کو نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی ہے۔ آزادانہ ذرائع اور دیگر ماہرین نے تھری ڈی پرنٹنگ کے زریعے جسمانی اعضا کی تیاری کو بہت سراہا ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں اعضا کی قلت کو اس طریقے سے بھی دور کیا جاسکتا ہے۔
اب تک بہت ہی کم افراد کے ونڈ پائپ یا سانس کی نالی کو بدلا جاسکا ہے۔ کینسر سے تباہ ہونے والے نالی کو فوت ہوجانے والے افراد کی جانب سے نالی عطیہ کرنے کی صورت میں ہی بدلا گیا ہے۔ دوسری جانب انہیں اسٹیم سیلز سے تیار کرنے پر بھی کام ہورہا ہے لیکن ابھی اس میں کامیابی بہت دور ہے۔
کیباہ کا مسئلہ پیچیدہ تھا۔ اس کی سانس کی نالی سے پتلون کے پائنچوں کی طرح نکلنے والی دو شاخوں میں سے ایک نالی متاثر تھی ۔ یہ ایک پیدائشی نقص ہے ۔ اکثر اوقات اس کا پتا اس وقت چلتا ہے جب بچہ سانس لینا بند کردیتا ہے اور ہسپتال آتے ہوئے دم توڑ دیتا ہے۔
کیباہ کا یہ مرض اس وقت پتا چلا جب وہ چھ ہفتوں کا تھا ۔ اس کے والدین کے ساتھ وہ ایک ریستوران میں تھا کہ اچانک نیلا پڑگیا اورسانس لینا بند کردیا ۔
پھر اس کا ایک آپریشن بھی کیا گیا ۔
اب حیاتیاتی طور پر از خود گھل کر ختم ہوجانے والے یا بایوڈگریڈایبل پولی ایسٹر سے اس کے لئے سانس کی نالی بنانے پر کام شروع ہوا۔ اس کا پہلا آپریش گزشتہ سال فروری میں کیا گیا ۔ اس کے بعد اسی مٹیریل سے ایک سپورٹنگ سانس کی نالی تیار کی گئی جو تین سال میں گھل کر ختم ہوجائے گی اور اصل خلیات ( سیل) اس کی جگہ لے لیں گے۔ یہ نالی ایک جدید ترین تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کی گئ ہے۔
ماہرین پر امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں یہ ٹیکنالوجی مزید ترقی کرے گی۔