نقطہ نظر

کہیں ہار کہیں جیت

بلوچستان کے ساتھ جو کیا جارہا ہے، وہ تو کوئی غیروں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ پاکستان کا حصہ ہی نہیں۔


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/93365843" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


انتظار کی گھڑیاں جن کے لیے ہم سمجھے تھے کہ اب ختم ہوئیں، وہ تو طویل ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ پہلے تو وعدے صرف عوام سے کیے جارہے تھے۔ اب درپردہ وعدے ان سے بھی کیے جارہے ہیں، جن سے اگر پہلے وعدے نہیں کیے تھے تو بعد میں مجبوراً کرنے ہی پڑتے ہیں۔

باہر آپ کچھ بھی جاکر بولیں اندر تو وہی کرینگے جو جنرل صاحب کہیں گے۔ ویسے انگریزی کے جنرل کے معنی بھی اتفاق سے دو ہی ہیں اور اپنے سیاستدان بھی دونوں کو جوابدہ ہیں۔ باہر بھی جنرل کو جوابدہ ہیں تو اندر بھی جنرل صاحب کو ہی جواب دینا پڑتا ہے۔ اور کہیں ہونا ہو اپنے ملک میں تو جنرل بھی اتنی تعداد میں ہیں کے خود ہی عوام بھی بن بیٹھے ہیں۔

سب انتظار کی گھڑیاں گننے میں لگے ہیں اور بجٹ ہے کے سر پر آن کھڑا ہے، لیکن اس طرف تو کسی کا بھی دھیان نہیں۔ مہنگائی کے خاتمے کی نوید دینے والے لگتا ہےمہنگائی اور بھی بڑھا کر دم لینگے.

لوڈشیدنگ کا خاتمہ تو جذبات کی رو میں بہہ کر کہدیا تھا۔ باقی کے وعدوں کے راز بھی کھلنے ہی والے ہیں۔

ویسے آجکل سب فی الحال عوام سے کیے گئے وعدے ایک طرف رکھ کر ایک دوسرے سے وعدے کر رہے ہیں۔ عوام سے کیے گئے وعدے تو نبھائیں یا نا نبھائیں لیکن ایک دوسرے سے کیے گئے وعدے تو کسی طور بھی نبھانے ہی پڑتے ہیں۔ اب پھر سے مفاہمت کا دور اور کاروبار شروع ہونے کو ہے۔ آپ سے کیے گئے وعدے سر آنکھوں پر لیکن حکومت تو مل جل کر ہی چلانی پڑتی ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سب کو راضی نہیں رکھیں گے تو پانچ سال کیسے نکال پائینگے۔

ویسے اب کی بارجو جیتے ہیں، وہ ہارے بھی ہیں اور جیتنے کی خوشی چھپا کر ہارنے پر ہی شور مچارہے ہیں۔ عجب طرح کی ہار جیت ہوئی ہے۔ کوئی بھی خوش نہیں۔ نا پورا ہارے ہیں نا پورا جیتے ہیں۔ فقط ایک میاں صاحب ہیں کہ جن کو زندہ پیروں کی دعائیں بھی ہیں تو ان پر سعودیوں کا سایہ بھی برقرارہے۔ اس لیے جنرل بھی خود چل کر آئے ہیں مبارکباد دینے کے لیے۔ اب رائے ونڈ، ماڈل ٹاؤن اور جی ایچ کیو کے درمیان کے فاصلے بھی ختم ہوا ہی چاہتے ہیں۔ رہا نائن زیرو، وہ صرف بلاول ہاؤس کے سہارے ہی رہے گا۔ بس ایک بات کا خدشہ ہے کہ یہ نا ہو کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبینگے۔

ویسے بھی اپنی کراچی کو ذاتی ملکیت قرار دینے والے جو پورے پاکستان میں امیدوار کھڑے کرکے پورے ملک پر راج کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ انکے لیے پورا ملک تو دور کی بات، کراچی بھی ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ شہر کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ اب صرف امن ہی ایک راستہ ہے۔ دنگے فساد بہت ہوچکے، براۓ خدا اپنے ہی شہر سے سوتیلوں والا سلوک چھوڑدیں۔ عوام نے تو خوف کی چادر اٹھاکر پھینک دی ہے۔ اگر اب کی بار بھی یہی سلوک کیا جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں تو پھر جو اب کے جیت ہوئی ہے، وہ اگلی بار صرف ہار ہی رہ جائے گی۔ غصے اور نفرت سے نہیں صرف پیار سے ہی دل جیتے جاتے ہیں۔ خدارا اب تو یہ بات سمجھ لیں کہ بعد میں اس کا بھی وقت نہیں رہے گا۔

پختونخواہ میں تبدیلی کے دعویداروں کی نظر ِانتخاب پھر اسی لوٹے پر جا ٹھہری ہے جو پچھلی ساری حکومتوں میں کسی نا کسی وزارت کے مزے لوٹ چکا ہے۔ باقی رہا جماعت سے اتحاد تو وہ بھی سب کو ہی معلوم ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہم نے تو انہیں ہمیشہ ایک ہی دیکھا ہے۔ دونوں انصاف پسند ہیں اور طالبان کے لیے بھی دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ پہلے ڈرون حملے بند ہوتے ہیں یا خودکش دھماکے۔ کم از کم کوئی ایک چیز تو بند ہونی ہی چاہیئے۔ ورنہ تبدیلی توصرف خواب ہی رہ جائیگی۔

صدر صاحب بھی اب قصرِ صدارت کے حصار سے باہر نکل آئے ہیں۔ اب فرماتے ہیں کہ کاش الیکشن سے پہلے ہی باہر نکل آتے تو یہ دن نا دیکھنے پڑتے۔

یہ دن تو پھر بھی دیکھنے پڑتے حضور! اگر پارٹی کو بھی گھرداری سمجھ کے چلائینگے تو یہی ہوگا۔ اب بھی شکر کریں کہ سندھ کے مجبور اور محصور عوام نے کچھ عزت رکھ لی ہے آپ کی۔ ورنہ منہ دکھانے کے قابل بھی نا رہتے۔

ویسے اب بھی وقت ہے گھرداری چھوڑکر پارٹی پر توجہ دیں اور لوگوں سے صرف وعدے نا کریں۔ جو کیے ہیں، انہیں نبھانےکی کوشش بھی کریں۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور آپ کا احتساب کرے، اپنا احتساب خود کریں، ورنہ اگلی بار دکھائی بھی نہیں دینگے۔

ایک بات اور بھی ذہن نشین کریں کہ اب یہ یاریاں نبھانا چھوڑ دیں تو بہتر ہے ورنہ اس یاری کے چکر میں سب کچھ کھو دینگے۔ اب ویسے بھی وہی ہونے والا ہے جو آپ پنجاب میں کر رہے تھے۔ وہ کھیل اب سندھ میں ہوگا۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں سندھ کو سندھ سے ہی چلائیں، قصرِ صدارت یا بلاول ہاؤس سے نہیں۔

جو بچے کھچے لیگی، آزاد اور سندھ بچانے کے نام پر ووٹ لے آئے ہیں وہ آہستہ آہستہ نون لیگ میں مدغم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بھٹو کے ٹیلینٹڈ کزن تو اپنا سب کچھ پہلے ہی لٹا چکے۔ اب دیکھیں اتنی قربانی کی کیا قیمت لگتی ہے۔ باقی رہے آزاد، وہ تو آزاد تھے ہی اس لیے کہ آزادی کی قیمت بھی زیادہ ملتی ہے۔ اور میاں صاحب تو ٹھہرے شیخ وہ بھی سعودیہ سے لوٹے ہوئے۔ اس لیے مایوس تو بالکل نہیں کرینگے۔

باقی اپنے کتاب والے مولانا جو وزیرِاعظم کا خواب لیے پیدا ہوئے تھے، کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی پر ہی اکتفا کرلینگے۔ کچھ تو ملے پختونخواہ میں نہیں تو مرکز اور بلوچستان میں ہی سہی۔

ویسے بلوچستان کے ساتھ جو کیا جارہا ہے۔ وہ تو کوئی غیروں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ملک کا حصہ ہی نہیں۔ اسے اگر الیکشن نا ہی کہیں، کوئی اور ہی نام دیدیں جو آپ کا دل چاہتا ہو۔ جس کی آپ کے اپنے خودساختہ قانون میں گنجائش ہو، ایسا ہی کوئی نام نکال کر لگادیں ۔ یہ الیکشن کہہ کر کیوں غریبوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

جو جمہوریت آپ کو باقی ملک کے لیے قبول ہے، ان بے چاروں کو اس لائق بھی نہیں سمجھتے؟ ایک جو موقعہ ملا تھا وہ بھی گنوا دیا۔ پانچ چھے سو ووٹ لے کر بھی کوئی اسمبلی کا ممبر بنتا ہے! یہ تبدیلی والے، یہ شریفانِ پنجاب کیا سو رہے ہیں؟ انہیں اگر ابھی دکھائی نہیں دے رہا، کرسی پر بیٹھنے کے بعد تو ویسے بھی آنکھوں پہ چربی چڑھنے میں دیر نہیں لگتی۔

اور اپنے سرخ ٹوپی والے جو آخری دم تک اپنے موقف پر قائم رہے۔ وہ ہارے اب بھی نہیں۔ وہ تو ہار کر بھی جیت گئے ہیں۔ پھر اپنے لوگوں میں جائینگے اور پھر اسی طرح کام کرینگے۔ دیکھیں اب دھماکے کرنے والے کیا کرتے ہیں۔ اب ان کو کیا احکامات ملتے ہیں۔ ڈرون تو بند ہونے والے نہیں۔

حکومتیں مرکز میں ہوں یا پختونخواہ میں، وہ بھی انکی مرضی کی ہی ہیں اور ان سے ملنے اور بات چیت کرنے کے لیے اتاولی بھی ہو رہی ہیں۔ اب دیکھیں یہ دھماکے کرنے والے کیا مطالبے رکھتے ہیں، کہیں صدارت اور گورنریوں پر تو نظر نہیں گاڑی ہوئی!


خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔