کہیں ہار کہیں جیت
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/93365843" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
انتظار کی گھڑیاں جن کے لیے ہم سمجھے تھے کہ اب ختم ہوئیں، وہ تو طویل ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ پہلے تو وعدے صرف عوام سے کیے جارہے تھے۔ اب درپردہ وعدے ان سے بھی کیے جارہے ہیں، جن سے اگر پہلے وعدے نہیں کیے تھے تو بعد میں مجبوراً کرنے ہی پڑتے ہیں۔
باہر آپ کچھ بھی جاکر بولیں اندر تو وہی کرینگے جو جنرل صاحب کہیں گے۔ ویسے انگریزی کے جنرل کے معنی بھی اتفاق سے دو ہی ہیں اور اپنے سیاستدان بھی دونوں کو جوابدہ ہیں۔ باہر بھی جنرل کو جوابدہ ہیں تو اندر بھی جنرل صاحب کو ہی جواب دینا پڑتا ہے۔ اور کہیں ہونا ہو اپنے ملک میں تو جنرل بھی اتنی تعداد میں ہیں کے خود ہی عوام بھی بن بیٹھے ہیں۔
سب انتظار کی گھڑیاں گننے میں لگے ہیں اور بجٹ ہے کے سر پر آن کھڑا ہے، لیکن اس طرف تو کسی کا بھی دھیان نہیں۔ مہنگائی کے خاتمے کی نوید دینے والے لگتا ہےمہنگائی اور بھی بڑھا کر دم لینگے.
لوڈشیدنگ کا خاتمہ تو جذبات کی رو میں بہہ کر کہدیا تھا۔ باقی کے وعدوں کے راز بھی کھلنے ہی والے ہیں۔
ویسے آجکل سب فی الحال عوام سے کیے گئے وعدے ایک طرف رکھ کر ایک دوسرے سے وعدے کر رہے ہیں۔ عوام سے کیے گئے وعدے تو نبھائیں یا نا نبھائیں لیکن ایک دوسرے سے کیے گئے وعدے تو کسی طور بھی نبھانے ہی پڑتے ہیں۔ اب پھر سے مفاہمت کا دور اور کاروبار شروع ہونے کو ہے۔ آپ سے کیے گئے وعدے سر آنکھوں پر لیکن حکومت تو مل جل کر ہی چلانی پڑتی ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سب کو راضی نہیں رکھیں گے تو پانچ سال کیسے نکال پائینگے۔
ویسے اب کی بارجو جیتے ہیں، وہ ہارے بھی ہیں اور جیتنے کی خوشی چھپا کر ہارنے پر ہی شور مچارہے ہیں۔ عجب طرح کی ہار جیت ہوئی ہے۔ کوئی بھی خوش نہیں۔ نا پورا ہارے ہیں نا پورا جیتے ہیں۔ فقط ایک میاں صاحب ہیں کہ جن کو زندہ پیروں کی دعائیں بھی ہیں تو ان پر سعودیوں کا سایہ بھی برقرارہے۔ اس لیے جنرل بھی خود چل کر آئے ہیں مبارکباد دینے کے لیے۔ اب رائے ونڈ، ماڈل ٹاؤن اور جی ایچ کیو کے درمیان کے فاصلے بھی ختم ہوا ہی چاہتے ہیں۔ رہا نائن زیرو، وہ صرف بلاول ہاؤس کے سہارے ہی رہے گا۔ بس ایک بات کا خدشہ ہے کہ یہ نا ہو کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبینگے۔
ویسے بھی اپنی کراچی کو ذاتی ملکیت قرار دینے والے جو پورے پاکستان میں امیدوار کھڑے کرکے پورے ملک پر راج کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ انکے لیے پورا ملک تو دور کی بات، کراچی بھی ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ شہر کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ اب صرف امن ہی ایک راستہ ہے۔ دنگے فساد بہت ہوچکے، براۓ خدا اپنے ہی شہر سے سوتیلوں والا سلوک چھوڑدیں۔ عوام نے تو خوف کی چادر اٹھاکر پھینک دی ہے۔ اگر اب کی بار بھی یہی سلوک کیا جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں تو پھر جو اب کے جیت ہوئی ہے، وہ اگلی بار صرف ہار ہی رہ جائے گی۔ غصے اور نفرت سے نہیں صرف پیار سے ہی دل جیتے جاتے ہیں۔ خدارا اب تو یہ بات سمجھ لیں کہ بعد میں اس کا بھی وقت نہیں رہے گا۔
پختونخواہ میں تبدیلی کے دعویداروں کی نظر ِانتخاب پھر اسی لوٹے پر جا ٹھہری ہے جو پچھلی ساری حکومتوں میں کسی نا کسی وزارت کے مزے لوٹ چکا ہے۔ باقی رہا جماعت سے اتحاد تو وہ بھی سب کو ہی معلوم ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہم نے تو انہیں ہمیشہ ایک ہی دیکھا ہے۔ دونوں انصاف پسند ہیں اور طالبان کے لیے بھی دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ پہلے ڈرون حملے بند ہوتے ہیں یا خودکش دھماکے۔ کم از کم کوئی ایک چیز تو بند ہونی ہی چاہیئے۔ ورنہ تبدیلی توصرف خواب ہی رہ جائیگی۔