نقطہ نظر

ختم شد؟

پی ایم ایل (ن) کو کسی بھی جماعت کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ سندھ یا خیبر پختونخوا کارڈ کا کھیل کھیل سکے

اب جبکہ انتخابات کا ہنگامہ اپنے اختتام کو پہنچ چکاہے- ہم نے کافی کچھ سیکھا ہے اور ابھی بہت کچھ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے- یہ انتخابات یقیناً پوری قوم کو متحد کرنے میں کامیاب تو نہیں ہو پائے ہیں مگر کم از کم ہمیں ایک وجہ اور امید کی کرن تو دی ہے کہ بروقت انتخاب اورایک سویلین حکومت سے دوسری حکومت کو انتقال اقتدار کا مروجہ طریقہ قوم کو متحد کرنے میں سب سے زیادہ کارآمد ہو سکتا ہے-

ایک مکمل طور پر آزاد اور شفاف انتخابات کا تصور ہمارے ملک میں ممکن ہی نہیں ہے لیکن مجھے یہ یقین ضرور ہے کہ صرف سیاسی جماعتیں ہی انتخابات میں دھاندلی کی پورے طور پر ذمہ دار نہیں ہوتی ہیں- اس میں اکثر ریاست ملوث ہوتی ہے بلکہ اگر کبھی سیاست دان یہ کام کرتے بھی ہیں تو ریاست ان کی پشت پر ہوتی ہے-

مثال کے طور پر تین کروڑ ستر لاکھ بوگس ووٹوں کے ہی معاملے کو لے لیجئے جسے حالیہ انتخابات سے پہلے ووٹرز کی لسٹ سے خارج کیا گیا تھا جو ایک بہترین کارکردگی تھی- پوری قوم بوگس ووٹوں کی اتنی بڑی تعداد کی ووٹنگ لسٹ میں شمولیت پر ششدر تھی لیکن اس حقیقت پر کسی نے روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کس کی ہدایت پر یا یہ کہ کون طالع آزما ان ووٹوں کو داخل دفتر کرواتے ہیں؟

مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ یہ اتنی بڑی ناقابل یقین تعداد کسی خصوصی مدت کے دوران ووٹنگ لسٹ میں شامل نہیں کی گئی ہوگی بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف فوجی حکومتوں کے دور میں اس میں اضافہ کیا گیا ہوگا اور نہ ہی کسی مخصوص سیاسی جماعت نے اس کا کبھی فائدہ اٹھایا ہوگا بلکہ اس کا مقصد یہ رہا ہوگا کہ جب کبھی ریاست کو کسی جماعت کی اکثریت کی بنا پر اقتدار سے دور رکھنے کی ضرورت ہو یا کسی منظور نظر جماعت کو ریاست کی حمایت کی ضرورت ہو تب ان ووٹوں کا استعمال کیا جائے-

رائے شماری کرنے والے عملے کی بوگس ووٹنگ یا ووٹوں کی غلط گنتی ایک الگ بات ہے اور لوگوں کو ووٹ دینے سے باز رکھنے کی کوشش کرنا دوسری- بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ کسی پولنگ اسٹیشن پر ایسے لوگوں کی بجائے جنہوں نے ووٹ نہیں دیئے اور ان کے ووٹ پڑ گئے ہوں اسکا پتہ نادرا کی مدد سے انکے انگوٹھوں کے نشان سے لگایا جاسکتا ہے- بلکہ ووٹوں کی قصداً غلط گنتی دوبارہ گنتی کرکے درست کی جاسکتی ہے، جس کا عمران نے 25 حلقوں کے حوالے سے مطالبہ کیا ہے.

اسکے علاوہ جو خواجہ سعد رفیق نے مبینہ طور پر کیا کہ ڈی ایچ اے-ایس بلاک کے پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل ہوکرانتخابات کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور تاخیری حربے استعمال کئے تاکہ باہر ووٹ دینے کیلئے لائن میں لگے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کیلئے کم سے کم وقت مل سکے (کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اس حلقے میں سارے عمران کے ووٹرز تھے)- جو چیز اگرچہ جاننے کی ضرورت ہے تو وہ یہ ہے کہ اس قسم کی حرکتوں سے چالیس ہزار ووٹوں کا فرق ہارنے اور جیتنے والوں کے درمیان نہیں پڑ سکتا ہے- یہ بات میں صرف اس واقعہ کے حوالے سے کررہا ہوں- گرچہ کہ مجھے یقین ہے کہ یہ نظریہ ساری دنیا کیلئے ممکنات میں ہے-

اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں سعد رفیق پر ملزم یا معصوم ہونے کا فیصلہ صادر کررہاہوں- ہوسکتا ہے کہ انہوں نے چارڑ گاؤں میں ہر طرح کے بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگائے ہوں- لیکن ڈی ایچ اے-ایس بلاک کا معاملہ ایک بالکل الگ بات ہے-

گرچہ کہ اس میں ظاہرا ناکامی ہوئی لیکن ٹی یو کیو کی اس پورے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش انتخابات میں دھاندلی کی کوششوں سے زیادہ پریشان کن تھی اس سے بھی زیادہ خطرناک ٹی ٹی پی کے سیاستدانوں پرحملے تھے- ان دونوں ناکامیوں کی وجہ ہمارے سیاستدانوں کی بالغ نظری اورجمہوری قدروں کیلئے قربانی دینے کا جذبہ تھی-

میں نہیں سمجھتا کہ پی پی پی اور اے این پی کی انتخابی مہم چلانے میں ناکامی کا کوئی خاص اثر انتخابات کے نتیجے پر پڑتا- لیکن یہ انکی قربانی ہی تھی جس کی وجہ سے یہ انتخابات ہو پائے- اور میں عمران خان کے خلاف نہیں ہوں سوائے اس بات کے کہ انہوں نے متوسط طبقے کے نوجوانوں کے دل میں سیاستدانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھر دئے ہیں- جب بھی کبھی کوئی دردناک واقعہ جس میں اے این پی یا پی پی پی کا کوئی امیدوار ہلاک ہوتا یا اغوا کرلیا جاتا ہے تو بجائے ہمدردی یا تشویش کے جذبات کے جلدبازی میں اس کی بدعنوانیوں کا ذکر کرکے اسکی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- عمران کو کسی دن ٹی وی پر پاکستان کے دستور اور قران دونوں سے یہ بات ثابت کرنا ہوگی کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ بدعنوانی کی سزا موت یا اغوا برائے تاوان ہے-

نوازشریف جو شاہانہ طرز سے طاقت استعمال کرنے کیلئے مشہور ہیں اس بار کافی احتیاط کا مظاہرہ کررہے ہیں- وہ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں ان جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں جو کہ کرنا بھی چاہئے کیونکہ وہ پنجابیوں کے ووٹ کی بنا پر مرکز میں حکومت بنا رہے ہیں- انکو کسی بھی جماعت کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ سندھ یا خیبر پختونخوا کارڈ استعمال کرنے کا کھیل کھیل سکے-

بے حد فعال عدلیہ اور پرشور میڈیا کے ساتھ انکے رابطے کے علاوہ ان کا اصلی امتحان ہمیشہ سے ہی بے انتہا طاقتور فوجی جنتا کے ساتھ معاملات میں انکے صبر و ضبط کے اظہار کا ہوگا- اگرچہ کہ فوج کا اس بار اقتدار میں حصہ دار بننے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا ہے- انکی پرانی ٹیم ہی انکی کابینہ کا حصہ ہوگی جس میں چودھری نثارعلی خان جیسے لوگ ضرور شامل ہونگے، نوازشریف کو واقعی محتاط ہونا ہوگا کیونکہ ان کی بنیادی وابستگی ابھی بھی تاجر طبقے سے ہے جو اپنی دکان کھولنے سے پہلے ان کو ووٹ دینے کیلئے آنے کو تو تیار ہیں لیکن سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے اپنی دکانیں نہیں بند کرینگے-

الطاف بھائی نے، مجھے اندیشہ ہے کہ پی ٹی آئی کے طرف داروں کو مزہ چکھانے کیلئےغلط وقت اورغلط طریقے کا انتخاب کیا- میں اقتدار کی سیاست میں اخلاقیات کی وکالت نہیں کر رہا ہوں لیکن میرے پاس کچھ غیر مصدقہ خبریں ہیں جو ٹی وی تک نہیں پہنچ سکیں- کہ مئی کے پہلے ہفتے میں الطاف بھائی سے تفتیش کے دوران ان کا گھراسکاٹ لینڈ یارڈ نے چھ گھنٹوں کیلئے سیل کردیا تھا- میں نے سنا ہے کہ دو مہینے میں مزید بری خبریں آنے والی ہیں لیکن بہتر ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پردھیان نہ دیں-


ترجمہ . سیدہ صالحہ

علی آفتاب سعید
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔