نقطہ نظر

کراچی کا مینڈیٹ

سچی بات ہے مجھے تو گیارہ مئی کو تبدیلی دکھائی دے ہی گئی۔ ووٹ کسی کو بھی ڈالیں لیکن ووٹ کا حق صرف لوگوں کا ہے۔


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/92318001" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


پچھلے سال جب ہم نے "پوسٹرز فار ٹومارو" کے "ڈرا می ڈیموکریسی پوسٹر ورکشاپ" کے لیے کراچی یونیورسٹی کے ویژیول اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ انکے ووٹ ڈالنے کے حق پر گفتگو کی اور انہیں اس چیز پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ لوگوں کو کس طرح اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کے بارے میں آگاہ کیا جائے تو بہت سارے اسٹوڈنٹس کی یہ رائے تھی کہ سیاستدان کتنے خراب ہیں اور ہمارے ووٹ ڈالنے یا نا ڈالنے سے کیا فرق پڑتا ہے اور یہ کہ ہم سے یا تو گن پوائنٹ پر ووٹ لیا جاتا ہے یا پھر کوئی اور ہی ہمارا ووٹ ڈال دیتا ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ہم کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالیں اور کیوں ووٹ دیں جبکہ ہونا تو وہی ہے جیسے ہوتا آیا ہے۔

بڑی ہی مشکلوں اور تگ و دو کے بعد ہم انہیں اس پر راضی کرسکے کہ ووٹ ڈالنا آپ کا حق ہے اور اپنے حق کو استعمال بھی آپ ہی نے کرنا ہے ورنہ کوئی اور آپ کا حق استعمال کر جائے گا اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ آپ کو گھر سے کسی طور بھی نکلنا ہے اور اپنی رائے دینے کا حق ضرور استعمال کرنا ہے۔ نا صرف آپ کو یہ سمجھنا ہے۔ بلکہ ان پوسٹرز کے ذریعے اور لوگوں کو بھی یہی بات بتانی اور سمجھانی ہے۔ اس لیے کہ آپ کے ہاتھ میں لوگوں کو ترغیب دینے کا ہنر ہے اور اسی لیے آپ پر زیادہ ذمّہ داری آتی ہے۔

آپ اگر چیزیں اور پراڈکٹس بیچنے کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ انکے کیا حقوق ہیں۔ تو نا صرف آپ کا، آپ کے ملک اور آپ کے لوگوں کا مستقبل بھی بہتر ہوسکتا ہے۔ یہ بات سمجھانے میں ہمیں مشکل تو کافی ہوئی۔ لیکن جو فائنل رزلٹ ہمیں ملا اس نے ہمیں بھی نئی طاقت دیدی۔

یہ ورکشاپ دنیا کے پندرہ ملکوں میں منعقد ہوئے۔ لیکن جو ہمارے بچوں نے پوسٹرز بنائے وہ بالکل اپنے ماحول اور اپنے سیاسی حالات سے متعلق تھے اور باقی ملکوں سے بالکل الگ بھی تھے اور بہتر طور پر اپنے لوگوں کو آگاہی بھی دے رہے تھے کہ ان کی رائے کی کیوں اور کتنی اہمیت ہے۔

چونکہ میرا ووٹ این اے دو سو پچاس میں ہے۔ جو ہمارے ایک لکھاری دوست کے بقول ہمیشہ سے کراچی کی ایک سیکیولر اور لبرل پارٹی کی ملکیت رہتی آئی ہے۔ ویسے ملکیت تو وہ پارٹی پوری کراچی کو ہی سمجھتی ہے۔ لیکن اس سیٹ پر اس کی ہمیشہ نظرِ کرم زیادہ رہی ہے کہ اس کے ذریعے اسےاپنے آپ کو سیکیولر اور لبرل کے خانے میں فٹ کرنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔

ہم نے بھی سوچا کہ ڈیفینس کلفٹن والے تو چھٹی والے دن بارہ بجے سے پہلے نہیں اٹھتے سو جلدی ووٹ ڈالنے کے چکر میں صبح صبح ہی پہنچ گئے۔

ہمارے پولنگ بوتھ پر تو ایک طرف خواتین کی لمبی لائین تھی تو دوسری طرف مردوں کی، لیکن معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے والے تو موجود ہیں۔ لیکن بیلٹ باکس نام کی چیز موجود ہی نہیں۔ اور بقول ایک بزرگ خاتون کے جو بھی ہماری طرح یہ سوچ کر آئیں تھیں کہ یہ نوجوان نسل تو ویسے بھی دیر سے اٹھتی ہے سو بہتر ہے صبح ہی ووٹ ڈالدیا جائے۔ یہاں آکر انہیں بھی معلوم ہوا کہ نوجوان تو صبح سات بجے سے ہی لائن بنائے کھڑے ہیں اور اب آہستہ آہستہ گھروں کو روانہ ہو رہے ہیں کہ پھر آتے ہیں۔ اور پھر ہم بھی حالات کو دیکھتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہو لیے کہ پھر چکر لگاتے ہیں۔

لیکن گھر پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ ہمارے پورے حلقے کا یہی حال ہے اور ہمارے حلقے سے ہر دفعہ کامیاب ہونے والوں کو شاید یہ بھنک پہلے ہی پڑ گئی تھی کہ اس دفعہ یہ پڑھے لکھے لوگ بھی اپنا ووٹ استعمال کر نے والے ہیں۔ سو پورے حلقے میں یہی حال تھا۔ ہمیں تو گھر بیٹھے لگ رہا تھا کہ ہم کوئی جرم کرینگے کہ اگر اپنا ووٹ نہیں ڈالینگے۔ خدا خدا کرکے یہ اعلان سنائی دیا کہ اب بیلیٹ باکس روانہ ہوگئے ہیں۔ ہم نے بھی تیاری پکڑی اور پہنچ گئے۔ ہمارے پولنگ اسٹیشن پر دو بجے کے بعد پولنگ شروع ہوئی لیکن ایسے بھی پولنگ اسٹیشن تھے کہ جہاں دس گھنٹے لائن میں کھڑے ہونے کے بعد بھی بیلیٹ باکس نہیں پہنچے۔

یہ سب لوگ، بڑے بوڑھے ، نوجوان، بیمار، معذور جو چل بھی نہیں پا رہے تھے، وہیل چیئر پر یا کسی لاٹھی کے سہارے پر، لیکن سب کو صرف اتنا معلوم تھا کہ میں نے اپنا ووٹ ضرور ڈالنا ہے۔ کچھ بھی ہوجائے یہاں سے ہلنا نہیں۔ نا انہیں کو ئی پکڑ کر لایا تھا نا گاڑیوں میں بھر کر لایا تھا۔ سب اپنی اپنی مرضی سے آئے تھے۔ دھوپ اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر سب کو صرف ایک فکر تھی کہ اپنے ووٹ کا حق خود ہی استعمال کرنا ہے نا کہ کسی اور کو کرنے دینا ہے۔

یہ گیارہ مئی کا دن تھا تبدیلی اور آئے یا نا آئے لیکن عوام کو تو کیا اس ایلیٹ کلاس کو بھی یہ معلوم ہوگیا ہے کہ ووٹ ڈالنا کتنا ضروری ہے۔ اور یہ سب کراچی والے اس لیے باہر نکلے ہیں کہ اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کریں اور ان کو بتادیں کہ جو جب بھی چاہیں شہر کو بند کرنے کا آرڈر جاری کردیتے ہیں اور پھر اگر حکم آئے تو دن کو تین بجے شہر کھولنے کا بھی آرڈر جاری کرتے ہیں۔

شہر کو تعصب کا شکار بھی انہوں نے ہی کیا ہے تو شہر معذور بھی ان ہی کی وجہ سے ہے۔ یہاں توکسی کو کسی سے نفرت نہیں۔ سب پہلے انسان ہیں پھر پاکستانی ہیں۔ جب ہی ووٹ ڈالنے آئے ہیں۔

ہم تو اپنی پانی کی بوتل بھی ساتھ لے گئے تھے لیکن لوگ بغیر کسی فرق کے کہ کون لائن میں کھڑا ہے اور کس کو ووٹ ڈالے گا۔ ایک دوسرے کو پانی بھی پیش کر رہے تھے تواگر اپنے ساتھ کچھ کھانے کے لیے لائے تھے تو وہ بھی ایک دوسرے سے شیئر کر رہے تھے۔ ایسی محبت، پیار، خلوص اور ڈسپلن میں نے تو کبھی بھی نہیں دیکھا۔ کیسے کیسے لوگ تھے جو سب بغیر کسی مذہبی اور لسانی تفریق کے لائن میں کھڑے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں جوں دن ڈھل رہا تھا لائنیں بڑی ہوتی جارہی تھیں۔

خواتین جن کو ملک میں اور تو کئی جگہوں پر ووٹ کا حق ابھی بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن یہ ماڈرن، نئی نسل کی بیٹیاں ہوں یا نانیاں دادیاں۔ سب کو صرف ایک فکر تھی کہ اپنا ووٹ تو ضرور ڈالنا ہے۔ میرا سر تو فخر سے اونچا ہوگیا ہے کہ میری نئی نسل بہت سنجیدہ ہے اور اس ملک سے اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا کہ دوسرے دعویدار(معلوم نہیں انہیں ملک سے پیار ہے یا پھر)۔

سچی بات ہے مجھے تو گیارہ مئی کو تبدیلی دکھائی دے ہی گئی ہے۔ ووٹ کسی کو بھی ڈالیں لیکن ووٹ کا حق صرف لوگوں کا ہے۔ یہ جو کراچی کے مینڈیٹ کے دعویدار ہیں ایک دفعہ فیئر اور فری الیکشن ہونے تو دیں، پھر اگر جیت کر آتے ہیں تو ہمارے سر آنکھوں پر بیٹھیں اور حکومت کریں۔ لیکن ڈرا دھمکا کر اور داداگیری سے اب کراچی کا مینڈیٹ ہڑپ نہیں کرسکتے۔

اس بار ہم تو یہی سمجھے تھے کہ الیکشن کمیشن نے جو طریقہ کار اپنایا ہے اگر اس پر عمل کرتے ہوئے الیکشن ہوا تو ضرور فیئر اور فری ہی ہوگا۔ لیکن جو لوگوں سے ڈرتے ہیں اور ان کے مینڈیٹ کے دعویدار بھی ہیں انہوں نےپھر وہی کیا جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ اب کی بار توسندھ میں بھی انکے بھائیوں اور اتحادیوں نے وہی کچھ کرنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن کب تک لوگوں کو ان کے حق سے محروم رکھیں گے؟ اب کی بار نہیں تو اگلی بار ان کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا کہ پوری تبدیلی اگر نہیں بھی آئی ہے، تو تبدیلی کا سفر شروع ہو ہی چکا ہے۔

اب دیکھتے جائیں بھائی صاحب! ویسے بھی تلواریں چلانے کا دور تو کب کا گذر چکا۔ اب سچ کی تلواریں بھی سوشل میڈیا سے ہی چلتی ہیں۔ جسے نا آپ روک سکتے ہیں نا کوئی اور۔


خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔