نقطہ نظر

!دنیا کی بہادر ترین جمہوریہ

گیارہ مئی کو ووٹ ڈال کر 50 ملین پاکستانی ایک بار پھر اپنے وطن عزیز کے مستقبل میں حصّہ دار بن گۓ ہیں

ممکن ہے پاکستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ نہ ہو لیکن بلا شبہ یہ دنیا کی نڈر ترین جمہوریہ ضرور ہے جہاں تقریباً 50 ملین ووٹروں نے اپنا حق راۓ دہی استعمال کرنے کے لئے گرمی، دہشتگردی اور تشدد کا سامنا کیا اور جمہوریت کی تاریخ میں ایک نۓ باب کا اضافہ کیا-

القائدہ کی ذیلی شاخ تحریک طالبان نے یہ عہد کیا تھا کہ جو بھی پاکستان کے انتخابی عمل میں حصّہ لے گا اسے نشانہ بنائیں گے- تحریک طالبان کی طرف سے آزاد خیال امیدواروں پر لاتعداد حملے اور خودکش دھماکوں کی نتیجہ میں انتخابات سے پہلے 100 سے اوپر اموات ہوئیں-

اپنی جانوں پر یہ کھلم کھلا خطرات اور 35 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی کے باوجود پاکستانی ووٹروں نے القائدہ کے خونی نظریات کی مخالفت کرتے ہوئے، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ (قومی اور صوبائی ملا کر) 100 ملین سے زاید ووٹ ڈالے-

دنیا کو پاکستانیوں کا خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ان پر دھری گئی انسداد دہشتگردی کی جنگ میں 40،000 اموات کے باوجود وہ مذہبی بنیاد پرستی اور جنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں - 11 مئی کے نتائج نے ایک بار بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر موقع دیا جاۓ تو پاکستانی مذہبی بنیادپرستی کے بجاۓ جمہوریت کو اپنائیں گے-

11 مئی کو پولنگ کے اختتام کے بعد ، بالغ راۓ دہی کی یہ کاروائی 12 مئی تک منتقل ہو گئی جہاں افسران نے ووٹوں کی ترتیب اور تصدیق جاری رکھی- 86.189 ملین رجسٹرڈ ووٹرز، قومی اسمبلی کی 342 نشتوں پر مقابلہ کرنے والے 5000 امیدواروں، صوبائی اسمبلی کی 728 نشستوں پر کمر کسے 11،692 امیدوار اور تقریباً 600،000 محافظ اور فوج کے ساتھ پاکستان کے یہ انتخابات پیمائش اور گنجائش کے لحاظ سے جمہوریت کی سب سے بڑی مشق تھی-

انتخابات کے دوران تشدد میں ضائع ہونے والی 130 جانوں اور اس سے بھی زیادہ دہشتگردی کی دھمکیوں کے باوجود پاکستانی جمہوری عمل کا حصّہ بننے کے لئے باہر نکلے -

پاکستانیوں نے ڈرون کے حمایتیوں کو مسترد کر دیا:

ابتدائی نتائج نے علاقائی اور صوبائی خطوں پر کچھ شگاف ظاہر کیے ہیں کیوں کہ کسی بھی ایک جماعت نے پاکستان کے تمام حصّوں سے کامیابی حاصل نہیں کی ہے لیکن پاکستان راۓ دہندگان ایک محاظ پر متحد نظر آۓ وہ یہ کہ انہوں نے ایسے تمام سیاستدانوں کو مسترد کر دیا جنہوں نے چپ چاپ یا کھلم کھلا پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کی ہے-

عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ امریکی ڈرون کے حمایتی ہیں کو لوگوں نے یکسر مسترد کر دیا- جب کہ وہ دو جماعتیں، مسلم لیگ-نون اور تحریک انصاف جنہوں نے پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کی 11 مئی کے انتخابت میں فاتح بن کر سامنے آۓ-

ابھی کچھ مہینوں پہلے کی بات ہے کہ واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے کچھ امریکی طالبعلموں نےایک پرچے میں پاکستان پر ڈرون حملوں کی کمزور حمایت میں ایک مقدمہ بنانے کی کوشش کی- پروفیسر کرسٹین فیئر اور انکی دو ساتھی مصنفوں نے اس بات پر بحث کی کہ 40 فیصد وہ پاکستانی جن کو ڈرون حملوں کی آگاہی ہے اسکی حمایت کرتے ہیں- میں نے انکی وجوہات اور اعداد و شمار پر سوالات اٹھاۓ کیوں کہ یہ ڈرون حملوں کی حمایت کے حوالے سے پاکستان کی ایک غلط تصویر پیش کر رہے تھے جو کہ سرے سے تھی ہی نہیں، جس کو پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی حاکمیت کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں-

جنوری 2013 میں انہی مصنفین نے اٹلانٹک ڈاٹ کوم کے لئے لکھتے ہوئے میرا مزاق اڑایا کہ مجھے؛ "پاکستان کے قبائلی علاقوں اور وہاں کی سیاسی حالت کی ذاتی طور پر کوئی معلومات نہیں ہے-"

انہوں نے میرے اس دعوے کا بھی مزاق اڑایا کے "اگر پاکستان میں کسی ایک معاملے پر اتفاق راۓ ہے تو یہ پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کی یک زبان مخالفت ہے".

بیشک 11 مئی کے انتخابات نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی نہ تو کوئی حمایت ہے اور نہ ہی کوئی مستقبل- وہ سیاسی جماعتیں جو کہ پاکستانی راۓ دہندگان کی مرضی کے خلاف ڈرون حملوں کی حمایت کر رہی تھیں انکو گمنامی میں دھکیل دیا گیا ہے-

قومی یکجہتی کی حکومت: پاکستانی سر زمین پر امریکی ڈرون حملے ہی وہ واحد چیلنج نہیں ہیں جن کا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو سامنا کرنا ہوگا- ایک گرتی پڑتی معیشت، توانائی اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے ٹوٹتا ہوا عملی ڈھانچہ، بیروزگاری، دہشتگردی، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں ہونے والی خانہ جنگی، نئی حکومت کو پیش آنے والے چلینجوں میں سے چند ایک ہیں - اسلام آباد میں مجلس قانون ساز ان تمام چلینجوں کا سامنا اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک وہ ان تمام آوازوں اور خیالات کو اپنے ساتھ ملا نہ لے جن کی حمایت عوام نے 11 مئی کو کی ہے- عوامی یکجہتی پر بنائی گئی حکومت فی الحال وقت کی اہم ضرورت ہے-

انتخابی نتائج پر نظر ڈالی جاۓ تو پاکستانی عوام نے اس وقت دو افراد پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے: میاں نواز شریف اور عمران خان- قومی اتفاق راۓ والی حکومت کو چاہیے کہ راۓ دہندگان کی خواہش کا احترم کرے اور ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کرے جہاں دو پسندیدہ ترین رہنما پاکستان کی قیادت کر سکیں-

خارجہ پالیسی کے بہت سے عناصر پر نون لیگ اور تحریک انصاف اتفاق راۓ رکھتے ہیں، اور دونوں ہی عدلیہ کی برتری قائم رکھتے ہوئے ایک بدعنوانی سے پاک کارآمد حکومت چاہتے ہیں، بعض تجزیہ نگاروں کے خیال کے برعکس میاں صاحب اور خان صاحب کی سیاسی معاملہ فہمی قریب قریب ایک ہی ہے-

نیشنل اسمبلی میں نواز لیگ کی قیادت سے یہ پتا لگتا ہے کہ دو مرتبہ کے بعد میاں نواز شریف تیسری بار کے لئے واپس آۓ ہیں- اس طرح خان صاحب کے لئے آگے جا کر صدارت کے دروازے کھلے ہونگے- اس کا امکان نہیں ہے کے موجودہ صدر آصف علی زرداری ان حالات میں ٹھیک طرح کام کر پائیں گے خاص طور سے ایسے وقت جب کہ راۓ دہندگان نے انکی جماعت کو باہر کا راستہ دکھا دیا ہے- اس طرح خان صاحب کو یہ موقع ملے گا کہ وہ صدارت کی کرسی کو اسکا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکیں جو زرداری صاحب کے دور حکومت میں اس نے کھو دیا ہے-

نئی حکومت کو لاحق چیلنج: نئی حکومت کو بھوکوں مرتی عوام سے بڑے بڑے وعدوں سے باز رہنا چاہیے، ایسی کسی بھی قسم کی ترغیب دینا عقلمندی نہ ہوگی- چند ماہ میں سب کو ملازمت کے وعدے، نوے دن میں بدعنوانی کا خاتمہ اور لوڈشیدڈنگ کا فوری خاتمہ یہ اس قسم کے وعدے ہیں جنکو ایک جھٹکے میں پورا کرنے کی حکومت قابل نہیں ہو سکتی-

چنانچہ سب سے بڑا چیلنج نئی حکومت کے لئے راۓ دہندگان کی امیدوں پر پورا اترنا ہوگا- کچھ علماۓ معاشیات کے دعووں کے باوجود کہ اگر ان کے مشوروں پر عمل کیا جاۓ گا تو ملک کی اقتصادی پیداوار دگنی ہو جاۓ گی، حکومت ان کے مشوروں پر عمل کر بھی لے تو ایسے کسی معاشی معجزے کی امید رکھنا عقلمندی نہ ہوگی- اقتصادی بہتری کا راستہ کافی تکلیف دہ اور چکرا دینے والا ہوگا. ہوسکتا ہے حالات بہتر ہونے سے پہلے بیحد بگڑ جائیں- حکومت میں اتنی ہمّت اور دیانتداری ہونی چاہیے کے وہ عوام کے سامنے حقائق رکھ سکیں-

امن و امان کی بحالی اور قیام، نئی حکومت کی تین ترجیحات میں سے ایک ہونی چاہیے- پاکستان کے اندر فرقہ پرستی اور مذہبی دہشتگردی پک رہی ہے- جنہوں نے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھاۓ اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا ان کے ساتھ پورے عزم کے ساتھ نمٹا جاۓ- نئی حکومت کو کروڑوں ووٹروں اور ان کے خاندانوں کی واضح حمایت حاصل ہے- اسکو فوراً اور فیصلہ کن اقدامات کر کے پاکستان کی سرزمین سے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہئے-

11 مئی کو ووٹ ڈال کر 50 ملین پاکستانی ایک بار پھر اپنے وطن عزیز کے مستقبل میں حصّہ دار بن گۓ ہیں- 11 مئی کو اپنا رہنما چننے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عظیم قومیں فقط عظیم رہنما سے نہیں بلکہ عظیم پیروکاروں سے بنتی ہیں ًجو ایک منصف اور خوشحال معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنے آدرشوں کا لچکداری سے پیچھا کرتے ہیں-

انتخابات مبارک اور پاکستان زندہ باد!


ترجمہ: ناہید اسرار

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔