پاکستان

سرکاری جامعات کا سنگین مالی بحران

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے گرانٹ کی عدم فراہمی سے جامعات میں جاری کئی منصوبوں پر کام بند ہوسکتا ہے۔

کراچی: ملک بھر کی تمام سرکاری جامعات کی طرح کراچی کی جامعہ کراچی بھی شدید مالی بحران کی شکار ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پبلک سیکٹر جامعات کے لیے موجودہ مالی سال کی گرانٹ فراہم نہیں کی جاسکی جس کے باعث جامعات میں مالی بحران سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے۔

جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ کا کہناہے کہ تعلیم پر خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا شمار آخری چھ  ممالک میں ہوتاہے۔

مالی بحران کے پیش نظر وفاقی حکومت کی جانب سے ایچ ای سی کو جامعات کو دینے کے لیئے گرانٹ کی رقم فراہم نہیں کی جاسکی۔ جامعہ کراچی جہاں اس وقت پچیس ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں اور کئی تحقیقی ادارے کام کررہے ہیں جو مالی بحران کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں محدود کرچکے ہیں.

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جامعہ کراچی نے اپنی سائنسی تحقیق کے نتیجے میں تیار ہونے والی اشیاء کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جسکے لئے ایک ادارہ بھی قائم کردیا گیا ہے۔

جامعات سے وابستہ اور انتظامی امور انجام دینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری جامعات کو ایچ ای سی نے گرانٹ کی چوتھی قسط جلد فراہم نہیں کی تو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہوجائے گا سابق شیخ الجامعہ پیرزادہ قاسم کا کہنا ہے کہ جامعات کو پہلے ہی جو کچھ مل رہا ہے وہ پہلےہی بہت کم ہے اور اس میں بھی کٹوتی افسوس ناک بات ہے۔

ایچ ای سے نے جامعات کے فروغ اور انکی تعداد بڑھانے کا حکم تو دیا لیکن کسی کو بھی جامعات کا ادراک نہیں۔  ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ تعلیم و صحت کے علاوہ ہر چیز پر خرچ کیا جاتا ہے ایسا تو کسی ملک میں نہیں ہوتا شیخ الجامعہ نے ماہرین کی اس رائے کی تصدیق بھی کردی اور بتایا کہ پاکستان تعلیم پر خرچ کرنے واے ممالک میں نیچے سے چھٹے نمبر پر ہے۔

جامعات کو اعلیٰ حکام کی جانب سے فیسیں بڑھانے کی تجویز دی گئی جس پر جامعات کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ سو فیصد بھی بڑھا دی جائے تو صرف آٹھ فیصد منافع کمایا جاسکتا ہے اوراس طرح یہ عمل طلبہ پر ایک بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔