نقطہ نظر

مجید بھائی بالی وڈ والے

دِلی سے بمبئی، کلکتہ اور لاہور کی فلم نگری کا رخ کرنے والے گمنام عاشقِ سنیما کا تذکرہ۔

خوابوں کی نگری ممبئی، سنیما اور بالی وڈ کی جوانی کا صد سالہ جشن منارہی ہے۔ سو سال میں اس عیار و دلفریب حسینہ کی فتنہ گری میں آکر جو لٹے اُن کا شمار قطار کہیں نہیں مگر دامِ اُلفت میں آنے والے ایک عاشق کا تذکرہ، جو تھے جگت کے مجید بھائی۔

نحیف و نزار جسم، چھوٹا قد، بتیس کے نصف دانتوں کو داغِ مفارقت دینے والے مجید بھائی تقسیمِ ہند کے بعد، عالمِ شباب میں بمبئی سے بچتے بچاتے، پہلے دِلی اور پھر وہاں سے ہوتے ہواتے پاکستان پہنچے تھے۔ یہ سن سینتالیس کا پُرآشوب دور تھا۔ پاکستان کی عمر بھی دو چار ہفتوں کی تھی۔

وہ موسمِ گرما کی ایک نرم اور اَبر آلود صبح تھی۔ مجید بھائی لاہور کے والٹن اسٹیشن سے ٹرین میں بیٹھ کر کراچی آ رہے تھے کہ گاڑی چھوٹے سے اسٹیشن پر چند منٹوں کے لیے رکی۔

مجید بھائی ٹھہرے بمبئی کے کانچ والے گلاسوں میں چائے بھر کر پینے کے رسیا، اسٹیشن پر انہیں خوش قسمتی سے ایک چائے کا کھوکا نظر آیا، جہاں ناشتہ دستیاب تھا۔ وہ بھی چائے پینے کیا اُترے کہ پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ خاندان ماضی بن چکا تھا۔ اسی لیے جو رُکے تو پھر ٹِکے۔

مجید بھائی بتاتے تھے کہ انہوں نے لڑکپن میں خاموش فلمیں بھی دیکھی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بمبئی کی فلم نگری پر پِرتھوی راج کے راج کا زمانہ تھا۔ بولتی فلموں کا دور نوزائیدہ تھا۔ ستیہ جیت رائے کا بھی چرچا تھا۔ تب نورجہاں، نرگس، راج کپور پردۂ سیمیں سے بہت دور تھے۔

جب بولتی فلموں کا دور شروع ہوا تو انہوں نے دلّی میں پہلی بار بولتی فلم دیکھی۔ فلموں کے دیوانے تو پہلے سے ہی تھے۔ بولتی فلموں نے تو اُن پر مانو بنگال کا جادو کردیا ہو۔

مجید بھائی طبیعتاً میلے ٹھیلے کے شوقین تھے۔ موج مستی رگ و پے میں بسی تھی جو عمر کے آخر تک رہی۔ جوانی میں کہیں پر نوٹنکی کا سنتے تو راہ کی دوری سوچے بنا سفر شروع کردیتے اور دیکھے بنا گھر نہیں لوٹتے تھے۔

بولتی فِلم دیکھی تو سب کو چھوڑ، اُسی کے ہو رہے۔ گھربار چھوڑکر فلم بینی اور اداکاری کا شوق لیے دِلی سے ایسے بمبئی آئے کہ پھر گھر واپسی کی ریل گاڑی انہیں نہ مل سکی۔

بتاتے تھے کہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اس لیے آئے کہ ممبئی اور دِلی میں مار کٹائی تھی جبکہ امن کے ساتھ ساتھ پاکستان میں لاہوربھی تھا جہاں فلمیں بنتی تھیں اور سنیما دیکھے جاتے تھے۔

مگر بمبئی میں دو وقت کی بھوک چمکانے اور پھر کئی روز بعد کسی ایکسٹرا رول کے عیوض ملے چند سکوں سے اسے مٹانے کے سوا، مجید بھائی کو قسمت سے کچھ اور نہ مل سکا۔

وہ کہتے تھے کہ ممبئی میں انہوں نے کئی فلموں میں ایکسٹرا رول کیے۔ اداکار بننےکے شوق میں انہوں نے کلکتہ کا بھی چکر لگایا اور مہینوں اسٹوڈیوز کی خاک چھانتے اور جوتیاں چٹخاتے پھرے تھے۔

ان کے بقول جب تقسیم ہوئی تو سمجھے تھے کہ شاید لاہور میں قسمت کا ستارہ چمک اٹھے۔ ویسے بھی فسادات کے دورمیں اُن کا ممبئی کی فٹ پاتھوں پر ٹکے رہنا مشکل ہوچکا تھا۔

آزادی کے فوراً بعد کا لاہور مہاجروں کا ڈیرا بن چکا تھا۔ افراتفری کا عالم تھا۔ مجید بھائی کے بقول اسی لیے کراچی جارہے تھے کہ وہاں سنیما اور سکون، دونوں ہوں گے۔

بھلا ہو اس صبح کا جب ٹرین رُکی اوروہ چائے پینے اُترے۔ کہتے تھے کہ چائے بہت ذائقہ دارتھی۔ ابھی دو گھونٹ ہی لیے تھے کہ بھاپ والے انجن کی سیٹی بج گئی۔ سوچا گاڑی تو کوئی اوربھی مل جائے گی لیکن چائے کا یہ لطف کھو جائے گا۔

مجید بھائی نے چائے کو ترجیح دی اور پیالہ ختم کرکے ٹہلتے ہوئے نکلے تو قریب کی بستی میں پہنچے۔ من موجی تو تھے ہی۔ دن کیا گذارا کہ دل لگ گیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔

رہنے کو ایک کھولی مل گئی، زندگی گذارنے کے لیے ایک پرائمری اسکول کے سامنے پیپل کے گھنے درخت تلے، چھولے کا خوانچہ لگایا اور باقی کی ساری زندگی اسی کے سہارے گذار کر نہایت ضعیفی کے عالم میں دنیا سے یوں گئے کہ نا تو کوئی کنبہ چھوڑا، نا کوئی ترکہ اور نہ ہی کوئی مسئلہ۔

بس، آخری عمر میں ایک شکوہ کرتے تھے کہ پاکستان میں اچھی فلموں کا زمانہ نہیں رہا۔

مجید بھائی ہر جمعہ کی نماز باعدگی سے ادا کرتے تھے اورمسجد سے نکلتے ہی دو میل کا پیدل سفر کر کے نئی لگی فلم کا پہلا، تین سے چھ والا شو دیکھنے پہنچ جاتے۔

اُس دن جمعہ کی صبح تھی جب محلے داروں نے ان کا سوئم کیا۔ نماز کے بعد ان کے ایصال ثواب کے لیے اُسی مسجد میں قرآن خوانی کا اہتمام تھا۔ لڑکے بالے سپارہ پڑھ رہے تھے اور اُن کے قریبی دوست مسجد سے نکلتے ہی سنیما پہنچے۔

کہتے ہیں کہ مجید بھائی کے دوستوں نے اُن کی من موجی روح کو سکون پہنانے کی خاطر، اُس روز نم آنکھوں اور بند ہونٹوں سے فلم کبڑا عاشق دیکھی تھی۔

ہائے کیا دوِرِ زندگی گذرا واقعے ہوگئے کہانی سے -- داغ دہلوی


 

مختار آزاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔