مئی گیارہ، 2013ء کے انتخابات کی انفرادیت یہ ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت کی مدت کے اختتام کے بعد دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا جائے گا۔ چنانچہ اس بات کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے کہ موجودہ انتخابات جو اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات قرار دیے جارہے ہیں، کا پاکستان میں اب ہونے والے گزشتہ انتخابات سے موازنہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اُن انتخابات کے ذریعے ملکی سیاست نے کیا صورت اختیار کی۔
ڈان ڈاٹ کام اس بات کا ایک مختصر تجزیہ پیش کررہا ہے کہ 1970ء سے لے کر 2008ء تک کے عرصے کے دوران پاکستان میں براہ راست حق رائے دہی کے ذریعے ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور شکست سے دوچار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ ان انتخابات نے پاکستانی سیاست کی ترتیب و تشکیل پر کیا اثرات مرتب کیے۔
1970ء کے انتخابات:
یہ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پاکستان کے پہلے انتخابات تھے اور ان کے متعلق یہ بھی کہا جارہا تھا کہ یہ ملکی تاریخ میں ہونے والے سب سے زیادہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پولنگ 7 دسمبر، 1970ء جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ 17 دسمبر کو ہوئی۔ پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے ساتھ ساتھ اس موقع سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ۔ یہ انتخابات یحیٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر(ایل ایف او)برائے تیس مارچ 1970ء کے تحت منعقد کیے گئے۔ جس میں راۓئے دہی کے حوالے سے اصول بھی طے کیے گئے تھے۔ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی مہم میں صف اول پر تھیں۔ پاکستان کے پہلے براہ راست انتخابات ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف ہی ماحول دوستانہ رہا اور انہوں نےاس کے طریقہ کار کا توجہ کے ساتھ مشاہدہ نہیں کیا۔ چنانچہ جب عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی تین سو تیرہ نشستوں میں سے 167 نشستیں حاصل کر کے میدان مار لیا ،اور اس طرح یہ واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی جسے حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہوا تو مغربی پاکستان میں سب حیران رہ گئے کہ اب کیا ہوگا؟ اس لیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی جو عوامی لیگ کے مدمقابل تھی، قومی اسمبلی کی 80 نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی۔ اس وقت کی مقتدر طاقتوں نے ایک نیا کھیل شروع کردیا، عوامی لیگ کو حق رکھنے کے باوجودحکومت نہیں بنانے دی گئی، ظاہر ہے کہ جس کا نتیجہ پاکستان کے مشرقی حصے میں احتجاج کی صورت میں ہی نکلنا تھا، یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا جو بالآخر پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بنی اور بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست بن کر دسمبر 1970ء کو دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔
مغربی پاکستان میں صدارت بھٹو کے سپرد کر دی گئی، یہی نہیں بلکہ انہوں نے ملک کے پہلے غیر فوجی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے چارج سنبھالا اور 1972ء میں انہوں نے مختصر مدتی قومی اسمبلی کو ایک دستور ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا، جو کہ مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے والے 138 ارکان، خواتین کی نشستوں سے 6، اور مشرقی پاکستان کی نشستوں پر منتخب ہونے والے 2 ارکان، جن کا تعلق عوامی لیگ سے نہیں تھا، پر مشتمل تھی۔ بالآخر وہ اسمبلی، جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم منتخب کیا اور 1973ء کے آئین کا مسودہ تیار کیا، کی مدّت 1977ء تک بڑھادی گئی۔
1977ء کے انتخابات:
1977ء کے انتخابات سال کے دوسرے نصف میں منعقد ہونا تھے، لیکن بھٹو نے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ یہ انتخابات سال کے اوائل میں 7 مارچ کو ہی منعقد ہوں گے ۔ جنوری 1977ء میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی بھٹو نے ایک بہت بڑی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا،عوامی اجتماعات اور پُرہجوم جلسوں سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے نام نہاد اسلامی اشتراکیت کی تشہیر کی، یہی نہیں بلکہ مذہبی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مذہبی حقوق کے نام پر مختلف احکامات بھی جاری کرنے شروع کر دیے ۔
اس وقت دائیں بازو کی نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان نیشنل الائنس بھٹو کے مدّمقابل تھا۔ یہ سیاسی ومذہبی جماعتیں 1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس کے خلاف متحد ہوگئی تھیں۔ انہوں نے بھٹو اور ان کے ساتھیوں پر بدعنوانی، بد انتظامی اور ملک کو بحران میں مبتلا کرنے کا الزام عائد کیا۔ پی این اے نے مذہب کو اپنا بنیادی نعرہ بنایا تھا اور ساتھ ہی بھٹو کے خلاف مہم بھی جاری رکھی، ان کی تنقید کا ہدف ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی خامیاں تھیں۔
جب 1977ء انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی ایک بڑی اکثریت کے ساتھ جیت گئی، اس نے قومی اسمبلی کی 200 نشستوں میں سے 100 پر کامیابی حاصل کی۔ پی این اے جس نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا، اس نے قومی اسمبلی میں صرف 36 نشستیں حاصل کیں ۔ الائنس نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور ایک بڑی سول نافرمانی کی ملک گیر مہم شروع کردی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ، اور پیپلز پارٹی کے صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد نے انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا بھی مطالبہ کیا ۔
ابتداء میں تو بھٹو نے قومی اتحاد کے مطالبات مسترد کر دیے، لیکن بعد میں ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی، دونوں جانب سے گفت و شنید کےسلسلے کے بعد انتخابات دوبارہ کرانے پر اتفاق کی کچھ اُمید پیدا ہوئی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس کا موقع آتا، بھٹو کے منتخب کردہ چیف آف آرمی اسٹاف ضیاء الحق نے جولائی 1977ء کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔
چنانچہ افسوسناک واقعات ایک سلسلہ ہے جو یکے بعد دیگرے سامنے آتا رہا اورپہلے بھٹو کی گرفتاری اور آخر میں محمّد احمد قصوری (ایک مشہور وکیل اور بھٹو کے سابقہ وفادار احمد رضا قصوری کے والد) کے قتل کے مقدمے میں پھانسی تک اختتام پذیر ہوا۔
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات:
جنرل ضیاء کے دور حکومت میں انتظامیہ بے لچک تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی اور فروری 1985ء میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور قید میں ڈال دیا گیا جو جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے تھے، ان سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف اتحاد تشکیل دے دیا تھا ۔
انتخابات سے پہلے بہت سے قوانین اور قواعد میں تبدیلیاں کی گئیں۔ جداگانہ انتخابات کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔ ووٹ رجسٹریشن کی درخواست میں ایمان کی شہادت کو لازمی قرار دیا گیا۔ عوام کی نظر میں ان انتخابات کا مقصد ایک نمائندہ حکومت کے قیام کے برعکس، ضیاء الحق کے اقتدار کو قانونی حیثیت دینا تھا اور یہ خیال اُس وقت درست ثابت ہوگیا جب انتخابات کے بعد اختیارات پارلیمنٹ سے صدر یعنی ضیاء الحق کو منتقل ہو گے۔ اختیارات کی منتقلی آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ہوئی جس کو اس سال کی منتخب قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا ۔
حالانکہ ضیاء الحق بار بار یہی کہتے رہے کہ یہ تمام اقدامات آئین کے مطابق ہیں جبکہ دوسری جانب سیاسی جماعتیں جن پر انتخابات میں حصّہ لینے پر پابندی تھی، 1973ء کے آئین کی بحالی کا مطالبہ کرتی رہیں۔
1988ء کے انتخابات:
انتیس مئی، 1988ء کو ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ بعد میں اُنہوں نے نومبر 1988ء کو ملک گیر غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ لیکن مطلق العنان فوجی حکمران کو اپنے اس اعلان پر عمل ہوتے ہوئے دیکھنے کا موقع نہ مل سکا کہ اُن کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا اور ان کے ساتھ امریکی سفیر آرنلڈ رافیل بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حالانکہ ضیاء کے فیصلے مطابق 1988ء کے انتخابات غیر جماعتی ہونا تھے، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی طرف سے دائر کی گئی پٹیشن کے جواب میں سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ بے نظیر نے یہ دلیل دی کہ یہ طریقہ کار بنیادی حقوق کی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
چنانچہ سیاسی جماعتوں میدان صاف ہو گیا۔ بے نظیر پیپلز پارٹی کی قیادت کررہی تھیں۔ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 16 اور 19 نومبر 1988ء کو یکے بعد دیگرے منعقد ہوئے۔ بہر حال پیپلز پارٹی کے سیاسی میدان میں واپسی کے ساتھ ہی ایک انتخابی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے تشکیل دے دیا گیا۔ یہ جماعت پیپلز پارٹی کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف جماعتوں نے مل کر بنائی تھی، اس کے نمایاں ارکان جماعت اسلامی اور مسلم لیگ تھے۔
سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم زیادہ تر پُر امن رہی، نتائج آنے پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی، اس نے قومی اسمبلی کی 204 نشستوں میں سے 93 نشستیں حاصل کیں اور دوسری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے ایک مخلوط حکومت قائم کی۔ 4 دسمبر 1988ء کو بے نظیر ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا حلف اُٹھایا۔
1990ء کے انتخابات:
بے نظیر کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بد عنوانی اور لاقانونیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں بر طرف کر دیا۔ 24 اکتوبر 1990ء کے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بے نظیر نے ملک گیر جلسے منعقد کرنے شروع کر دیے، جن میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کارکنان نے شرکت کی، اسی دوران نواز شریف نے بھی انتخابی مہم کے تحت عوامی جلسے شروع کر دیے۔ اس بار پیپلز پارٹی نے پاکستان جمہوری اتحاد کے جھنڈے تلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس جماعت میں تین اور جماعتیں شامل تھیں، اصغر خان کی تحریک استقلال ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور پاکستان مسلم لیگ کا ملک قاسم گروپ شامل تھے۔ حالانکہ بےنظیر کی جماعت کے حامی کافی زیادہ تھے لیکن انتخابات میں دیکھا گیا کہ آئی جے آئی جیسی قدامت پسند جماعت نے قومی اسمبلی میں 105 نشستیں جیتیں جب کہ پی ڈی اے نے صرف 44 نشستیں حاصل کیں۔ چنا نچہ نواز شریف نے اسلام آباد میں حکومت قائم کی جبکہ پیپلز پارٹی انتخابات میں دھاندلی کا گلہ کرتی رہی۔ لیکن اس کے اعتراضات کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
کافی عرصے کے بعد 1996ء میں اصغر خان نے آئی ایس آئی کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ 1990ء کے انتخابات میں پی ڈی اے کو ہرانے کے لئے آئی ایس آئی نے سیاست دانوں کو بھاری رقوم بطور رشوت دی تھی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ سنایا ہے، جس کے مطابق 1990ء کے انتخابات غیر منصفانہ اور بدعنوانی پر مبنی تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ بعض سیاسی رہنماؤں کو رشوت دی گئی تھی تا کہ عوام اپنے نمائندوں کا آزادانہ انتخاب نہ کر سکیں۔ خیر کچھ ہی عرصے میں صدر غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے جس کے نتیجے میں نواز شریف کا دور حکومت 1993ء کو ختم ہوگیا اور ساتھ ہی صدر نے بھی استعفا دے دیا۔ اس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے بحیثیت صدر اور معین قریشی نے قائم مقام وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
1993ء کے انتخابات:
ان انتخابات میں نواز شریف اور ان کے حامیوں نے پاکستان مسلم لیگ، نواز گروپ کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔ کچھ لوگ جنہوں نے نواز گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، انہوں نے پاکستان مسلم لیگ، جونیجو گروپ کا نام اختیار کیا ۔
یہ انتخابات 6 اکتوبر 1993ء کو منعقد ہوئے، جس میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کافی نشستیں حاصل کیں، مگر وہ اتنی نہ تھیں کہ پیپلز پارٹی اپنی حکومت بنا سکے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی دوسری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر اپنی حکومت قائم کرلی اور بے نظیر دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ مسلم لیگ نون نے بےنظیر حکومت میں حزب مخالف کا کردار سنبھال لیا ۔
فاروق احمد خان لغاری ملک کے صدر منتخب ہوئے، شاید صرف اس لیے کہ آگے چل کر بے نظیر کی حکومت کو بر طرف کر سکیں۔ ابتدا میں برطرفی کی وجہ پیپلز پارٹی کی صدر اور ان کے خاوند آصف علی زرداری پر بد عنوانی کے الزامات تھے۔ سندھ میں ہنگامہ آرائی، سپریم کورٹ سے مسلسل اختلافات اور بےنظیر کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا کراچی میں پولیس مقابلے میں قتل نے ان حالات کے دوران جلتی پر تیل کا کام کیا۔
1997ء کے انتخابات:
بےنظیر حکومت کی برطرفی کے بعد صدر نے 6 فروری، 1997ء کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مابین انتخابی جنگ شروع ہو گئی۔
سابقہ حکومت کی نااہلی کے بعد، انتخابی مہم کا زیادہ تر زور بد عنوانی کے خاتمے، مستحکم اقتصادی حالت کی کوششوں اور نسلی تعصب ختم کرنے پر تھا۔
انتخابات میں دیکھا گیا کہ مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی میں 135 نشستیں حاصل کیں جبکہ پیپلز پارٹی بمشکل 18 نشستیں حاصل کر پائی، متحدہ قومی موومنٹ نے 12 اور عوامی نیشنل پارٹی نے 9 نشستیں حاصل کیں۔
مسلم لیگ نون نے اپنی حکومت قائم کی اور پیپلزپارٹی کی شکست کے کچھ ماہ بعد بینظیر نے ملک چھوڑ دیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔
2002ء کے انتخابات:
نواز شریف کی 1997ء کی فتح مختصر مدت کے لیے تھی، جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوجی انقلاب ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یہ فوجی انقلاب نواز شریف اور ان کے منتخب کردہ آرمی چیف کے درمیان مہینوں سے پروان چڑھنے والے اختلافات کا نتیجہ تھا۔
اس انقلاب کے ڈیڑھ سال بعد جنرل مشرف نے 10 اکتوبر ، 2002ء کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ سیاسی جماعتیں جو ایک مدت سے اس وقت کا انتظار کر رہی تھیں میدان میں آگئیں اور تقریباً پچاس کے قریب گروپوں نے نشستوں کے حصول کے لیے انتخابی مہم میں حصّہ لینا شروع کر دیا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ قاف نے 118 نشستیں اور پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں حاصل کیں۔ متحدہ مجلس عمل نے 60 جبکہ مسلم لیگ نون بمشکل 19 نشستیں حاصل کر پائی۔ پولنگ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے 17 اور عمران خان کی تحریک انصاف نے فقط ایک نشست حاصل کی۔ مسلم لیگ قاف جسے بادشاہ کی جماعت بھی کہا جانے لگا تھا، متحدہ مجلس عمل (جو کہ مذہبی جماعتوں کا مجموعہ تھی) کو اپنا سب سے اہم حلیف بنا لیا۔ چنانچہ مرکز میں مسلم لیگ قاف کی قیادت میں حکومت بنائی گئی، جس کے حقیقی قائد جنرل مشرف خود تھے اور جیسا کہ انہوں نے آغاز نسبتاً اچھی شہرت کے ساتھ کیا تھا، ان کے دور حکومت میں ہونے والے واقعات خاص طور سے اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد آپریشن، بینظیر کا قتل اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی برطرفی نے عوام کی نظر میں شہرت کو نقصان پہنچایا۔
بگڑتی ہوئی ساکھ نے فوجی حکمران کو نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور قومی میڈیا پی پابندی عائد کرنے پر مجبور کر دیا ۔
حالات ایسے ہو گئے کہ موجودہ ریٹائرڈ جنرل کو، اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، ساتھ ہی 8 جنوری 2008ء کو انتخابات کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ جو کہ آخر کار اس سال 18 فروری کو ہوۓ۔ انتخابات کے کچھ ماہ بعد پرویز مشرف صدارت سے مستعفی ہو گئے اور خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرکے لندن چلے گئے۔
2008ء کے انتخابات:
انتخابات جو کہ بینظیر کے قتل کے ایک ماہ بعد ہی ہونے تھے، وہ امکان کے مطابق پیپلزپارٹی کے حق میں ثابت ہوۓ ئے۔ جماعت نے 122 نشستیں حاصل کیں، نواز گروپ نے 92 نشستیں، 25 نشستیں متحدہ قومی موومنٹ نے اور عوامی نیشنل پارٹی نے 13 نشستیں حاصل کیں ۔
پیپلز پارٹی نے مرکز میں دوسری جماعتوں، خاص طور سے مسلم لیگ نون کے اشتراک سے حکومت بنائی۔ گو کہ یہ اتحاد زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا، لیکن متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کئی سال تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی جبکہ مسلم لیگ قاف بہت بعد میں حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ کہ مشرف کے استعفے کے بعد زرداری کو ملک کا صدر منتخب کر لیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دو وزیر اعظم آئے، یوسف رضا گیلانی جن کو عدالت کی توہین پر نا اہل قرار دے دیا گیا تھا، دوسرے راجہ پرویز اشرف جن کو گیلانی کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔
ملکی تاریخ میں یہ پہلی منتخب غیر فوجی حکومت تھی جس نے اپنی معیاد پوری کی اور اس دوران کسی قسم کی فوجی مداخلت نہیں ہوئی۔
2013ء میں نئی اسمبلی کے انتخاب کے لیے، گیارہ مئی کو انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے۔ انتخابات میں جو بڑی جماعتیں حصّہ لے رہی ہیں ان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، مسلم لیگ قاف، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ ملک میں جاری بدامنی اوردہشت گردانہ حملوں کے ساتھ انتخابی مہم چلانا کافی دشوار ہو گیا ہے، خاص طور سے حال ہی میں متحدہ موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ انتخابی مہم اب خون آلود ہوچکی ہے۔ اب عوام اپنے ووٹ سے ایک نئی حکومت منتخب کرنے جارہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ عوام کا فیصلہ ملک کو کس طرز کے راستے پر آگے بڑھاتا ہے۔
ترجمہ: ناہید اسرار