گیارہ اور بارہ مئی
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/91266291" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
معلوم نہیں یہ اتفاق ہے یا پھر کسی نے سوچ سمجھ کر ان دو تاریخوں کا انتخاب کیا ہے۔ 12 مئی 2007 کو بھی ملک کے اصل رکھوالوں نے اپنے پالے پوسوں کو استعمال کرکے آگ اور خون کی ہولی کھیلی تھی اور اب پھر اپنے پالے پوسوں کے ذریعے 11 مئی کے دن کو پاکستانی تاریخ کا ایک یادگار دن بنانے کا پروگرام ہے۔
پچھلی بارہ مئی کو بھی مکا لہرا کر بتادیا گیا تھا کہ ہماری طاقت سے ڈرو۔ اور اب کے تو ویسے بھی ملک کے اصل رکھوالوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں کہ جو انہوں نے چاہا تھا وہ سب کچھ پروگرام کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔
نا سارے ووٹ میاں صاحب کی جیب میں جانے ہیں کہ وہ آپے سے باہر ہوجائیں۔ نا ہی اپنے خانصاحب نے سوئپ کرنا ہے کہ قوم نئے پاکستان میں داخل ہوجائے۔
پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کا اگر بہت برا حال تھا بھی تو طالبان کی مدد سے بہتر کردیا گیا ہے۔ ساتھ میں باقی جو بچے کھچے ہیں وہ بھی کچھ نا کچھ سیٹیں لے ہی آئینگے۔ اور پھر مفاہمت اور بٹوارے کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، جس میں پچھلے حصےداروں سے زیادہ حصے دار ہونگے۔ پھر مل بیٹھ کر کھانا تو ہو گا ہی لیکن سب سے پہلے تو سب سے بڑے حصے دار کے حصے کو تسلیم کرنا ہوگا۔
اب کی بار بھی سب سے بڑے حصےدار نے ہمیشہ کی طرح کھیل ہی ایسا کھیلا ہے کہ پچھلے دور میں جو اسے آنکھیں دکھانے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں بھی وہ اپنی اوقات میں لے آئے ہیں۔ اور جس کو سب پر بھاری سمجھا جاتا تھا ، وہ صرف اپنے ہی اوپر بھاری رہ گیا ہے۔
سارا وزن تو اب اسی طرف ہی چلا گیا ہے جہاں ہمیشہ سے رہتا آیا ہے۔ ویسے بھی ایک وہی ہیں جو اس ملک میں جمہوریت کو پنپتے دیکھنا چاہتے ہیں کہ جمہوریت جیسی بھی ہو ان کی عزت و ناموس پر حرف آنے نہیں دیتی۔ باقی اگر کسی کو برا بھلا کہنا ہو یا ملک کو درپیش ساری برائیوں کا ذمےدار ٹھہرانا ہو تو سیاستدان اور جمہوریت تو ہیں ہی۔
اِن کی طرف تو نگاہ تب اٹھتی ہے جب لولی لنگڑی اور اندھی بہری جمہوریت سے بھی پاکستان کے عوام کو محروم رکھا جاتا ہے۔ ایسے تجربے اب انہوں نے بھی بہت کرلیے اور ویسے بھی مشرف بھائی جتنے بدنامی کے داغ دے گئے تھے، وہ بھی بڑی مشکل سے ہی دھو پائے ہیں۔
اب اس ملک میں صرف جمہوریت کا ہی راج ہوگا اور وہ بھی ہمیشہ کی طرح ان کی پسند کی۔ آپ اپنا ووٹ شوق سے استعمال کریں۔ دینگے تو اسی کو جس کی چوائس ملی ہے۔ فرق وہی ہے جو طالبان یا اچھے طالبان میں ہے۔ اگر اچھا نکال دیں تو صرف طالبان ہی بچتے ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں خراب تو سب ہی ہیں، اور جو کم خراب ہیں وہی آپ کی آخری چوائس ٹھہریں گے۔
البتہ جو اچھے ہیں ان کو تو اس لائق بھی نہیں چھوڑنا کہ اس دنگل میں اتریں۔ اگر کچھ لٹانے کے لیے ہوگا تو لٹائیں گے نا۔ باقی جو لوٹ کے لائے ہیں ان کے پاس لٹانے کے لیے بہت ہے۔ ٹی وی کھولو یا ریڈیو سب کچھ پیڈ ٹائم پر چل رہا ہے۔ کہاں گئے ڈرامے، خبریں یا تفریح و طبع کے پروگرام۔ اب کی بار تو سارا الیکشن لگتا ہے ٹی وی پر ہی لڑا جا رہا ہے۔ ویسے بھی عوام کو جلسےجلوسوں میں جانے سے باز رکھنے کے لیے طالبان اپنا کام کر ہی رہے ہیں۔ باقی جن کو جلسے جلوسوں کا بہت شوق ہے تو وہ اپنے ٹی وی چینل کے آگے بیٹھ کر، گھر بیٹھے پورا کر رہے ہیں۔
ویسے بھی اس الیکشن میں اور کسی نے کمایا ہو کہ نا کمایا ہو۔ لیکن اپنے چینل تو دو کیا آٹھ ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں۔ پیڈ ٹائم کے پیسے تو ویسے بھی الگ ہیں۔ لیکن ادھر تو براہ راست جلسے بھی دکھائے جا رہے ہیں تو ٹِکر پہ ٹِکر بھی چلائے جا رہے ہیں۔ لیڈر تولندن دبئی میں آرام سے بیٹھے ہیں ۔ لیکن ان کی چیخیں اور دھاڑیں گھر گھر محلے محلے سنائی دے رہی ہیں۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ لوگ گھر گھر جلسے سن کر کہیں یہ نا سمجھ بیٹھیں کہ ووٹ بھی ٹی وی یا فیس بک پر ہی کاسٹ ہو جائے گا۔ ویسے سچی بات ہے وہ دن بھی اب دور نہیں رہا جب لوگ گھر بیٹھے بیٹھے ووٹ بھی کاسٹ کرلینگے۔ جب گھر بیٹھے سارے کام انجام ہونا شروع ہو ہی گئے ہیں تو اس میں بھی اب کوئی دیر نہیں رہ گئی۔
ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، شادی، محبت، دوا دارو، دعا ثواب، مبارک دینی ہو یا تعزیت کرنی ہو۔ جب یہ سب گھر بیٹھے ہو رہا ہے۔ جب آپ سارے بل گھر بیٹھے یا بستر میں لیٹےلیٹے جمع کرسکتے ہیں، تو پھر وہ دن بھی دور نہیں کہ ووٹ بھی گھر بیٹھے ہی کاسٹ ہوگا۔ اب کی بار الیکٹرانک پرچی تو رائج ہو ہی گئی ہے۔ وہ بھی پوری دنیا میں ہم اکیلے ملک ہیں جو اس کا استعمال کرے گا۔ فخر کی بات تو ہے، جب نئے پاکستان میں داخل ہو نے کو ہی ہیں تو فخر کے ساتھ ہی داخل ہونگے۔ رہا گیارہ اور بارہ مئی والا سوال تو وہ اور سوالوں کے ساتھ ہمارے سر پر پھر بھی منڈلاتا رہے گا۔
پوری قوم سرپرائزز کے انتظار میں ہے۔ ویسے بھی یہاں تو ہر لمحے ایک سرپرائز مل ہی جاتا ہے۔ ٹی وی کے آگے بیٹھے رہیں آپ کو مایوسی بالکل نہیں ہوگی۔ سرپرائز نا ملے تو پیسے واپس۔ ویسے ہے تو یہ بھی پیسے کا کھیل جس میں اگر کوئی دن دھاڑے کما رہا ہے تو وہ اپنے ٹی وی چینل ہی ہیں اور لگتا تو یہی ہے کہ اتنے پیسے کمانے کے بعد ہر چینل کے بطن سے دو چار اور چینل جنم لینگے کہ ابھی تک تو ہم نے یہی دیکھا ہے کہ ایک میں سے دو، دو سے تین اور تین سے چار صرف چینل ہی ہوسکتے ہیں۔ کوئی جیتے یا ہارے لیکن اپنے چینلز کی تو چاندی ہوگئی ہے۔ یہ معلوم نہیں چاندی کیوں کہتے ہیں، کہنا تو یہی چاہیئے کے سونا ہو گئے ہیں۔
سیاستدان جن کی لوٹ مار کی داستانیں بھی یہی چینل دن رات سنا رہے ہوتے تھے۔ اب پیڈ ٹائم کے بہانے سارا لوٹ کا مال سمیٹ رہے ہیں۔ ایک اگر مشکل میں ہیں تو وہ ہیں جن کی نا کوئی پارٹی ہے ، نا شجرہ، نا مال، نا ملکیت ۔صرف جذبے، سچائی اور سوچ کے بل بوتے پر اس کھیل میں کود پڑے ہیں۔ جو نا اخبار میں اشتہار چھپواسکتے ہیں نا ہی کسی چینل کا ٹائم خرید کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ صرف وہی منہ کے بل گرینگے۔ کوئی قسمت والا ہی ہوگا جو جیت کر ان لٹیروں کی فوج کا حصہ بنے گا۔