نقطہ نظر

پورے پانچ سال

جمہوریت ان سے بھی انتقام لے سکتی ہے جو اس کے نام کو اپنے مفاد اور عوام کے استحصال کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ان کے دور میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے لیکن وہ شاید یہ بات نہیں سمجھ پائے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کو پورے پانچ سال حکمرانی کا موقع دے کر اس نے نہ صرف اپنے بلکہ اپنی ہی بنائی ہوئی پارٹی کے پاؤں پر جو کلہاڑی ماری اس کا زخم شاید پوری زندگی ناسور بن کے انہیں ستاتا رہے۔

کیا ضرورت تھی بھان متی کے اس کنبے کو پورے پانچ سال تک جوڑے رکھنے کی؟ نتیجہ دیکھ لیا ناں لوگوں نے ان کی بغل بچہ پارٹی کو 2008 کے الیکشن میں کس بری طرح دھتکار دیا اوردیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ پورے پانچ سالوں تک پاکستان پر حکومت کرنے والا کنبہ دھڑام سے ایسے زمین پر آگرا کہ اینٹ کہیں پڑی تھی توروڑا کہیں پڑا تھا۔

اگر مشرف کو اپنی بنائی ہوئی پارٹی سے زرا بھی ہمدردی ہوتی تو وہ کوئی الزام لگا کے اسے پانچ سال پورے ہونے سے کچھ مہینے پہلے برخواست کردیتا تاکہ کنگز پارٹی کو رونے دھونے اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے پرچار کا موقع مل جاتا اور جھوٹ موٹ کے ٹسوے بہا کر اور اپنی مظلومیت کا رونا رو کر شاید وہ ایک بار پھر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی لیکن جنرل صاحب کی سادگی دیکھئے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ق) کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دے کر اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ ان کے کسی مشیر باتدبیر نے بھی انہیں کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا جس پر عمل کرکے وہ اپنی تشکیل کردہ پارٹی کی آبرو رکھ لیتے۔

اگر پرویز مشرف کے زیر سایہ پرورش پانے والے یہ سیاستدان ان پانچ سالوں میں ملک اورعوام کی فلاح کے لئے کچھ کرتے تو لوگ شاید ان کی قدر بھی کرتے لیکن انہوں نے یہ عرصہ صرف وعدوں، دعوؤں اور اپنے باس کی خوشامد میں گزار دئیے۔ آج یہ عالم ہے کہ جنرل صاحب کے گلدان میں اُ گنے والے پودے انہی کے مخالفین کی کیاریوں میں اپنے جلوے دکھا رہے ہیں جبکہ وہ خود کسی ٹھنڈی چھاؤں کی آس میں دائیں بائیں دیکھنے پر مجبور ہیں۔

ماضی میں پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اس لحاظ سے خوش قسمت رہیں کہ ان کی "منتخب حکومتوں" کو پانچ سال پورا نہیں کرنے دیا گیا ورنہ جمہوریت کے نام پر تماشہ کرنے والے اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد شاید عوام کو مُنہ دکھانے کے بھی قابل نہ رہتے۔

پچھلے پچیس سالوں کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو متعدد بار حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن انہوں نے عوام کو محض دعوؤں اور وعدوں سے بہلانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

ملک اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے بجائے انہوں نے صرف اپنی حالت بہتر بنانے پر توجہ دی، سَودوں اور معاہدوں میں کمیشن حاصل کرنے کی خاطر پورے ملک کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا، خارجی دوستوں کے مفادات کی خاطر ملک کو دہشت گردی اور فرقہ واریت کی بھٹی میں جھونک دیا، خود تو بھیک مانگ کر اپنی حکومتیں چلاتے رہے ساتھ ہی عوام کی اکثریت کو بھی بھیک مانگنے پر مجبور کردیا، خود محفوظ بنکروں میں بند ہوکر بیٹھ گئے لیکن عوام کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، ملکی اثاثوں کو اونے پونے بیچ کر ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو غیر ملکی بنکوں میں منتقل کردیا، کبھی پیلی ٹیکسی یا موٹروے کے نام پرعوام کو بے وقوف بنایا تو کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر غریب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔

اس کے باوجود ان کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ انہیں کبھی عوام کی ”مکمل“ خدمت کا موقع نہیں دیا گیا اور ان کی منتخب حکومتوں کو مدت پوری ہونے سے قبل ہی بر طرف کردیا گیا۔ دونوں پارٹیوں نے اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنی حکومتوں کی برطرفی کو نا انصافی سے تعبیر کر کے ہمیشہ اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا اور دوبارہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے۔

زرداری صاحب نے بھی جیسے تیسے کرکے اپنے پچھلے پانچ سال پورے کر ہی لئے۔ اس دوران ملک کا جو حال ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ امن و امان سے لیکر معیشت تک کون سا ایسا شعبہ ہے جو ابتری کی آخری حدود کو نہ چھورہا ہو؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا س مرتبہ وہ کیا تاویل پیش کریں گے؟

ملکی تاریخ کے طاقتور ترین منتخب صدر، ان کی اپنی پارٹی کے رہنماء اور ان کی شہید لیڈر کے شوہر گرامی، وزیر اعظم ان کے اپنے چہیتے، مرکز کے علاوہ دو صوبوں پر ان کی حکومت جبکہ ایک صوبے کی حکومت میں ان کی شراکت داری، منظور نظر کابینہ اور بین الاقوامی دوستوں کی سرپرستی، نہ فوج بظاہر ان کا کچھ بگاڑنے کے موڈ میں نظر آئی نہ عدالت ان کا کچھ بگاڑ سکی۔ نہ سویٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ان کے پیسوں کو کوئی ہاتھ لگا سکا نہ ہی رینٹل پاور کیس میں کوئی ان کا کچھ بگاڑ سکا۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ وہ عوام کو کچھ دینے سے قاصر رہے؟ نہ امن وامان پر قابو پاسکے نہ ہی لوگوں کے معیار زندگی میں کوئی بہتری لاسکے۔ اس کے برعکس ان پرایک بار پھر اپنوں کو نوازنے اور اربوں روپوں کے گھپلوں کا الزام لگا۔

اب تو پیپلز پارٹی کے پاس عوام کو مطمئن کرنے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے شاید کوئی بہانہ بھی نہیں۔ اب کی بار وہ اپنی مظلومیت کا رونا بھی نہیں رو سکتی کیوں کہ کسی نے ان کی حکومت پر شب خون نہیں مارا، کسی نے انہیں تخت سے اتار کر کال کوٹھڑی میں بھی نہیں پھینکا۔

پیپلز پارٹی کے پاس ایک اچھا موقع تھا جب وہ ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی، عوام کا معیار زندگی بلند کر سکتی تھی اور جمہوریت پر عوام کا اعتماد بحال کرسکتی تھی۔ لیکن برا ہو ان مکمل پانچ سالوں کا جس نے اپنے اختتام پر پیپلز پارٹی کوبے یار و مددگار ایک دشت میں لا کھڑا کردیا۔ ورنہ اگر پھر سے کوئی مہم جُو ماضی کی تاریخ دہراتے ہوئے ایک بار پھر پی پی پی کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیتا تو زرا سوچئے کہ یہ زرداری اور ان کے اتحادیوں پر کتنا عظیم احسان ہوتا۔ وہ ایک بار پھر رونی صورتیں بنا کے ملک کی سادہ لوح عوام سے یہ کہہ سکتے تھے کہ پاکستان اور عوام کی خوشحالی اور ترقی کی خاطر انہوں نے جو اقدامات اُٹھائے تھے ان کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہی ہوئے تھے کہ ان کی حکومت غیر جمہوری طریقے سے ختم کردی گئی۔

وہ یہ دعویٰ کرسکتے تھے کہ ان کی کوششوں سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہونے ہی والا تھا، امن و امان کی بحالی بس چند ہفتوں کی بات تھی، ریلوے اور پی آئی اے سمیت تمام اداروں کی بحالی کے کام کا آغاز بھی بس ہونے ہی جا رہا تھا، بے روزگارافراد بالخصوص جوانوں کے لئے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کئے جا چکے تھے جس سے ملک میں بے روز گاری کا خاتمہ ہونے والا تھا، مزدوروں اور ملازمین کی تنخواہیں تین گنا کرنے کا اعلان کیا جانے والا تھا، اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کی جارہی تھی، پٹرول اور گیس کے نرخ بھی انتہائی کم کئے جارہے تھے، ملک بھر میں صحت اورتعلیم مفت کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا جس کا بس اعلان ہی باقی تھا، تمام شہروں میں زیر زمین تیز رفتار ٹرینیں چلانے کے مکمل انتظامات ہو چکے تھے، عوام کو ان کی دہلیز پر فوری انصاف مہیا کرنے کی تیاری بھی مکمل تھی، بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے خصوصی پروگرام ترتیب دیا گیا تھا، ناراض بلوچوں سے بات چیت بھی آخری مراحل میں تھی، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو اپنا سرمایہ ملک کے اندر منتقل کرنے پر آمادہ کیا جا چکا تھا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے بھی واپس کئے جارہے تھے اور ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے سارے انتظامات مکمل ہو چکے تھے۔ اس طرح وہ پا کستان کو امریکہ سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے اپنے کام کاآغاز کرنے ہی والے تھے کہ ان کی پونے پانچ سال کی محنت پر پا نی پھیرتے ہوئے ان کی حکومت ختم کردی گئی ورنہ اگر انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا تو آج پاکستان کا نقشہ ہی مختلف ہوتا، ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتیں اور پاکستان جنت کا نمونہ بن چکا ہوتا۔

لیکن کیا کیجئے کہ درحقیقت معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے لوگ اب ان کی کسی بات کا اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں۔ پیپلز پارٹی کا شیرازہ کافی حد تک بکھر چکا ہے، کئی پرانے جیالے پارٹی چھوڑ کر مخالف جماعتوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو انکی پارٹی پوزیشن خراب ہے ہی سندھ میں بھی لوگوں کا غم و غصّہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ وہ زرداری اور پی پی پی کی گزشتہ کارکردگی سے ہرگز مطمئن نہیں۔

گزشتہ دس سالوں میں جمہوریت کے تسلسل نے شاید عوام کو اتنا شعور دے دیا ہے کہ اب وہ اپنے مستقبل کا بہتر فیصلہ کر سکتی ہے، اب انہیں محض جذباتی نعروں، دعوؤں اوروعدوں سے نہیں بہلایا جاسکتا۔ آنے والا حکمران کوئی بھی ہو اسے عوام کے مسائل اور ان کے حل کا ادراک کرنا ہوگا ورنہ کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جمہوریت ان لوگوں سے بھی انتقام لے سکتی ہے جو اس کے نام کو اپنے مفاد اور عوام کے استحصال کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

حسن رضا چنگیزی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔