دنیا

"مسلمانوں کی اکثریت شریعت کا نفاذ چاہتی ہے"

واشنگٹن میں قائم پیو فورم کے سروے میں 29 فیصد پاکستانیوں نے جمہوریت کو پسندیدہ نظام سیاست قرار دیا۔

پیو ریسرچ فورم برائے مذہب اور عوامی زندگی کے تحت وسیع پیمانے پر کیے گئے ایک سروے سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ جیسے جیسے مذہبی رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، مسلم دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کی جانب سے اسلامی قوانین اور شریعت کو اپنے ملکوں میں سرکاری قوانین کی صورت دینے کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن وہ اس بات کو ماننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں کہ شریعت ان پر کیا فرائض عائد کرتی ہے اور جن کی ادائیگی کے لیے اُنہیں کیا کرنا چاہئیے۔

مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں تین چوتھائی سے زائد مسلمان چاہتے ہیں کہ طلاق اور جائیداد کے تنازعات جیسے فیملی لاء کے مسائل کا فیصلہ شرعی عدالت کے تحت کیا جائے۔

واشنگٹن میں قائم پیو فورم کے تحت اس سروے سے یہ بھی حقیقت سامنے آئی ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد خودکش حملوں کو رد مسترد کرتی ہے۔ لیکن فلسطین میں چالیس فیصد ، افغانستان میں39 فیصد، مصر میں 29 فیصد اور بنگلہ دیش میں 26 فیصد لوگوں نے اس کی حمایت کی۔

سروے کے دوران تین چوتھائی افراد نے اسقاط حمل کو اخلاقی طور پر غلط قرار دیا اور  80 فیصد یا اس سے زیادہ نے ہم جنس پرستی اور مخالف جنس سے شادی کو رد کردیا۔

چوروں کے ہاتھ کاٹنے یا مرتد کے لیے موت کی سزا کے حوالے سے اسلامی دنیا بہت زیادہ تقسیم نظر آئی، اگرچہ جنوبی ایشیا کے تین چوتھائی سے زیادہ مسلمانوں نے ان سزاؤں کے درست ہونے کے لیے مختلف جواز پیش کیے۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ بنیاد پرست مسلمان انہیں مغربی معاشروں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں اور ان سزاؤں پر اصرار نے ہی اسلامی شریعت کو غیرمسلم ممالک میں متنازعہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے جو اس سروے سے سامنے آئی کہ مسلم ممالک باہمی اتحاد اور ہم آہنگی سے بہت دور ہیں۔

اس سروے کے مطابق مسلمان، شریعت کے تمام پہلوؤں سے یکساں طور پر مطمئن نہیں ہیں اور ان کے حوالے سے ان کے اندر کافی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس کو غیر مسلموں پر لاگو کیا جانا چاہئیے۔

پرنسیٹن یونیورسٹی کی پولیٹیکل سائنٹسٹ امانی جمال جو اس سروے پروجیکٹ کی مشیر تھیں، نے کہا کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد مفلس اور جابرانہ معاشروں میں مقیم ہے، اُن کے شریعت کی جانب مائل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی اسلامی اقدار مثلاً مساوات اور سماجی انصاف کے ذریعے اپنی زندگیوں میں سدھار لانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے صحافیوں کو ایک کانفرنس کے دوران بتایا کہ “اس طرح کے معاشروں میں شریعت کے لیے نمایاں طور پر حمایت دیکھنے میں آئے گی، لیکن اس کے برعکس ایسے مسلمان جو پہلے ہی تنگ نظر اور کٹر نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، وہ شریعت کو سرکاری قانون بنانے کی اتنی حمایت نہیں کرتے۔

سیاست اور تشدد

انتالیس ممالک میں 38 ہزار مسلمانوں میں سے تقریباً تیس ہزار سے زیادہ نے کہا کہ ان کے ملکوں میں مقیم غیر مسلم اپنے عقائد پر آزادانہ عمل کرسکتے ہیں اور وہ بہت اچھی حالت میں ہیں۔

یہ نکتہ نظر جنوبی ایشیا میں بہت زیادہ مستحکم پایا گیا، جہاں  97 فیصد بنگلہ دیشی اور 96 فیصد پاکستانی اس سے متفق ہیں، جبکہ مشرق وسطیٰ میں سب سے کم  نتیجہ مصر میں 77 فیصد تھا۔

یہ سروے صرف ان ممالک میں ہی کیا گیا تھا، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، ایسے ممالک کے مسلمان جو اقلیت میں ہیں، سے رابطہ نہیں کیا گیا۔ کچھ مسلمان ملکوں میں مقیم عیسائی اقلیتوں سے رابطہ کیا گیا جو بہت زیادہ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے مورچہ بند جیسی کیفیت میں ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ وہ امتیازی سلوک اور جسمانی حملوں کی وجہ سے اپنے عقائد پر آزادانہ عمل نہیں کرسکتے۔

اسلام اور سیاست کے مابین تعلق پر کیے گئے سوالات پر ملا جلا ردّعمل سامنے آیا۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جمہوریت کو لوگوں کی معمولی اکثریت کے ساتھ تائید حاصل ہوئی، مثلاً عراق میں 54 فیصد نے ، مصر میں 55 فیصد نے اور پاکستان میں 29 فیصد کی نہایت کم تعداد نے جمہوریت کو پسندیدہ نظام سیاست قرار دیا۔

جبکہ اس کے برعکس لبنان میں 81 فیصد، تیونس میں 75 فیصد اور بنگلہ دیش میں 70 فیصد نے جمہوریت کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

جن ممالک میں یہ سروے کیا گیا، ان میں سے زیادہ تر میں مقیم مسلمان دیگر کسی بھی قسم کے مذہبی تشدد سے کہیں زیادہ اسلام کے نام پر عسکریت پسندی سے پریشان نظر آئے۔

خواتین اور پردہ

اس سوال پر کہ کیا خواتین کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ اسکارف پہنیں یا نہیں؟ تو تیونس میں 89 فیصد نے اور 79 فیصد نے انڈونیشیا نے کہا کہ اس فیصلے کا انہیں حق حاصل نہیں۔ جبکہ عراق میں 45 فیصد  اور افغانستان میں 30 فیصد نے اس سوال کا نفی میں جواب دیا۔

لبنان کی 74 فیصد اور ملائیشیا کی 96 فیصد اکثریت نے کہا کہ بیویوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں۔