پاکستانی آئین ریاست کے ہر شہری کو اظہارِ رائے کا حق دیتا ہے اور ووٹ اس کا اہم حصہ، جسے عالمی سطح پر مسلمّہ بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جاتا ہےاور تمام جمہوری ریاستیں اس کی توثیق کرتی ہیں مگر ووٹ کا حق کیسے استعمال ہو؟
قومی سطح پرعام انتخابات، مقامی سطح پر بلدیاتی یا پھر خاص صورت میں ریفرنڈم کے ذریعے جمہوری ریاستیں شہریوں کی رائے جاننے کے لیے، انہیں ووٹ دینے کا موقع فراہم کرتی ہیں، جس میں ہر بالغ شہری رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔
انتخابی امورکی انجام دہی کے لیے پاکستان میں وفاقی سطح پر الیکشن کمیشن قائم ہے، جس کے چاروں صوبوں میں علاقائی اور ضلعی سطح پر مقامی دفاتر موجود ہیں۔ ملک میں شہریوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے انتخابی فہرستوں اور دیگر متعلقہ انتظام دہی یہی ادارہ مختلف محکموں کے تعاون سے سر انجام دیتا ہے۔
اگر شہری کی عمر اٹھارہ سال مکمل ہوجائے تو پھر:
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 'ایک شخص، جو پاکستانی شہری ہو اور جس سال انتخابی فہرستیں تیار یا ان پر نظر ثانی کی جارہی ہو، اُس سال یکم جنوری کو اس کی عمر اٹھارہ سال سے کم نہ ہو، اوراسے کسی مجازعدالت نے ذہنی سطح پرغیر مستحکم قرار نہ دیا ہواور وہ ایک انتخابی حلقے کا رہائشی ہو، خود کو ایک انتخابی حلقے سے بطور ووٹر درج کرانے کا اہل ہے۔'
ووٹ درج کیسے ہو:
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحت، بالعموم انتخابات سے قبل ووٹ اندراج کے لیے ملک گیر سطح پر مہم چلائی جاتی ہے، جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہوتی ہے۔ اگر پھر بھی ووٹ درج نہ ہوسکے تو متعلقہ الیکشن کمیشن سے رابطہ کر کے اندراج کی درخواست دی جاسکتی ہے۔
ووٹ کا اندراج کا نیا نظام:
پاکستان میں سن دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات تک ووٹوں کے اندراج کا روایتی طریقہ کار موجود تھا، (جس کا اوپر ذکر ہوچکا) تاہم گذشتہ برس پاکستان میں رجسٹریشن کے قومی ادارے 'نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی' نے بائیو میٹرک سسٹم کے تحت اٹھارہ سال مکمل کرنے والوں کا انتخابی فہرستوں میں خود کار نظامِ اندراج متعارف کرا دیا ہے۔
کیا ووٹ درج ہوچکا:
اگر الیکشن کمیشن کے منتخب عملے کو آپ ووٹ درج کرانے کے لیے متعلقہ نامزدگی فارم خانہ پُری کے بعد لوٹا چکے تو آپ کا نام فہرست میں درج ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن غیر حتمی و نظر ثانی فہرستوں کو متعلقہ علاقوں کے نمایاں مقام پر چند روز تک رکھتا ہے۔ آپ ڈسپلے سینٹر جا کر فہرست میں اپنا نام دیکھ سکتے ہیں۔ آپ یہ تصدیق الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود فہرستوں کے زریعے بھی کرسکتے ہیں۔
اگر غیر حتمی فہرست میں نام نہ دیکھ سکے تو؟
جدید بائیو میٹرک سسٹم کے تحت الیکشن کمیشن نے ووٹ کی تصدیق کا عمل متعارف کرایا ہے۔ آپ نادرا کے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کا نمبر، ایس ایم ایس کے ذریعے ایٹ تھری ڈبل زیرو پر بھیج دیں۔ جواب میں آپ کو: اپنا شناختی کارڈ نمبر، انتخابی حلقہ، ضلع، تحصیل، شہر یا گاؤں، بلاک کوڈ اور انتخابی فہرست میں ووٹ کا سیریل نمبر ملے گا۔ پیچیدگی سے بچنے کے لیے ووٹر کا نام و پتا نہیں دیا جاتا۔ فی ایس ایم ایس فیس دو روپے بمع ٹیکس ہے۔
اگر انتخابی فہرست میں نام، ولدیت، شوہر کا نام غلط درج ہو تو:
ایسی صورت میں الیکشن کمیشن کے مطابق، مذکورہ شہری فوری طور پر ضلعی الیکشن کمیشن کے دفتر سے رابطہ کرکے معلومات درست کراسکتا ہے۔ تاہم یہ عمل فہرستوں پر نظر ثانی کے مرحلے میں زیادہ درست طور پر انجام دیا جاسکتا ہے۔
اگر پاکستانی شہری ملک میں موجود نہ ہو:
قواعد کے تحت بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کا ووٹ ان کے اہلِ خانہ، قریبی رشتہ دار وغیرہ درج کراسکتے ہیں تاہم ووٹ دینے کے لیے ووٹر کا متعلقہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہونا لازمی ہے۔
ووٹ کیسے دوں؟
اگر اپنے انتخابی حلقے کا علم نہیں تو الیکشن کمیشن کی ایس ایم سروس سے فائدہ اٹھا کر متعلقہ معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے الیکشن آفس بھی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ ان سے متعلقہ پولنگ اسٹیشن کے مقام کا علم ہوسکتا ہے۔
پولنگ اسٹیشن ووٹرز کی سہولتوں کے پیشِ نظر عموماً رہائشی علاقوں کے قریب ترین سرکاری اور بعض (خاص صورتوں میں نجی) عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں۔
امیدوار اور ووٹر:
اگر آپ اپنے حلقے کے کسی امیدوار سے متعلق نہیں جانتے تو ووٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک اہم سہولت دی ہے۔ اب الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر یا متعلقہ ریٹرنگ افسر سے رابطہ کر کے، امیوار کے جمع کرائے گئے کوائف اورتمام تر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنے سے قبل:
ووٹ کا استعمال کرنے کے لیے آپ کے پاس نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کا جاری کردہ اصل شناختی کارڈ ہونا لازمی ہے، بصورت دیگر ووٹ دینے کے مجاز نہیں تاہم پولنگ اسٹاف پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس کو تصدیقی دستاویز تسلیم کرنے کا مجاز ہے۔
ووٹ دینے کے لیے پولنگ استیشن پہنچنے کے بعد:
اگر آپ کے پاس اپنے ووٹ کا سیریل نمبر موجود ہے تو قطار میں کھڑے ہوکر باری کا انتظار کریں، بصورت دیگر آپ پولنگ اسٹیشن کے ساتھ قائم کسی بھی امیدوار کے کیمپ سے اپنے ووٹ نمبر کی پرچی لے کر قطار میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔ یہ کیمپ الیکشن کمیشن کے منظور کردہ ضابطہ اخلاق کے تحت قائم ہوں گے۔
پولنگ بوتھ پر:
انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ، ووٹ کا سیریل نمبر اور معلومات کا اپنے پاس موجود انتخابی فہرست سے موازنہ کرنے کے بعد ووٹ ڈالنے کی اجازت دیں گے۔
بیلٹ پیپر:
متعلقہ سرکاری عملہ آپ کے شناختی کارڈ (یا دستاویز) کی حتمی تصدیق کر کے، انگلی کے پور پر انمٹ سیاہی کا نشان لگانے کے بعد بیلٹ پیپر جاری کرے گا۔ یوں آپ علیحدہ گوشے میں جاکرپسندیدہ امیدوار کے نشان یا نام پر مہر لگائیں گے اور پھر واپس آکر مہر سرکاری عملے کو واپس اور تہ شدہ بیلٹ پیپر، بیلٹ باکس میں ڈالیں گے۔ ووٹ کا حق استعمال ہوچکا۔
عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نئی بات نہیں:
سیاسی جماعتوں سے لے کر امیدوار اور اُن کے حامی تک یہ الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ مارچ، اُنیّسو ستتر کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام عائد کر کے حزب اختلاف کے متحدہ قومی محاذ نے احتجاجی مہم چلائی، نتیجے میں، صرف تین ماہ کے بعد نئی منتخب حکومت کا فوج نے تختہ اُلٹا اور ملک میں گیارہ سال فوجی حکومت رہی۔ یہ رویہ ملک میں انتخابی روایات کا حامل ہے۔
تاہم اب حکام کا کہنا ہے کہ نادرا کے جدید بائیو میٹرک سسٹم اور شناختی کارڈ کی بدولت اس کے امکانات نہایت محدود ہیں تاہم اگر پولنگ اسٹیشن یہ علم ہو کہ آپ کا ووٹ بھگتایا جاچکا تو پھر انتخابی عملہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا جواز پولنگ ایجنٹ ہیں جن کی تصدیق کے بعد، سرکاری پولنگ اسٹاف، ووٹر کو بیلٹ پیپر جاری کرتا ہے۔
ووٹ کوئی اور بھگتا جائے تو؟
پولنگ اسٹیشن پر پریزائڈنگ اور اسسٹنٹ پریزائڈنگ افسر کی خدمات انجام دینے والے متعدد سرکاری افسرن کی رائے یہی ہے اُس وقت کچھ نہیں ہوسکتا، ماسوائے تحریری شکایت کے۔
شکایت کیوں کر ہو؟
ووٹر، متعلقہ پولنگ اسٹیشن پرعمل کی نگرانی کرنے والے پریزائڈنگ افسر کو فوراً اورالیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام کو فیکس وغیرہ کے ذریعے شکایت ارسال کرسکتا ہے۔ وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے ذریعے بھی شکایت بھیج سکتا ہے۔ وہ اپنے اپنے پسندہ امیدوار کے پاس بھی اس بات کی شکایت کرسکتا ہے، بس! شکایت کرسکتا ہے۔