ووٹ کی طاقت
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/89288228" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
ووٹ کی طاقت کے قصے تو ہم نے بھی بہت سنے ہیں اور آپ بھی ضرور واقف ہونگے ۔ لیکن اپنے ملک میں تو اس طاقت کو بھی ایسا دبادیا گیا ہے کہ خود جو یہ طاقت رکھنے والا ہے ۔ وہ بھی اپنی اس طاقت سے نا بلد ہے۔
جیسے اس ملک میں قوم کی باقی صلاحیتوں کو اس کی اس سرزمین پر آنکھ کھلنے کے بعد دبانا شروع کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس طاقت کواس قدر دبایا گیا ہے کہ بے چارے عوام کے پاس رہی ہی نہیں۔ البتہ وقتِ ضرورت اسے اپنے حق میں استعمال میں لانے والے ، قوم کو اس طاقت کے بارے میں صرف اتنی ہی آگہی دیتے ہیں کہ جب بھی انہیں ضرورت ہو تو وہ بلا چوں چرا کہ اس کے حقدار ٹھہریں۔
یہ جو آپ کے ووٹ کے صحیح حقدار ہیں۔انہیں کبھی نا اپنے بارے میں بتانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ناہی اپنا آگا پیچھا، نا اپنا نظریہ، نا اپنی سوچ ، نا کوئی پروگرام، نا ہی کوئی مستقبل کا نقشہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اگر منتخب ہو بھی گئے تو آپ کے لیے آسمان سےکون سے چاند تارے توڑ کر لائینگے یا آپ اور آپ کے بچوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی بھی لائینگے کہ نہیں۔ انہیں تو آپ کا ووٹ صرف کسی نعرے اور تصویر کے بنیاد پر چاہیئے ہوتا ہے۔
انہوں نےکبھی بھٹو کی تصویر آگےکی تو کبھی بے نظیر کی، کبھی نوازشریف اس قوم کے نجات دہندہ بنے ۔تو اب اپنے عمران خان کی شکل میں آپ کو تبدیلی کا خواب دکھایا جار ہا ہے۔ رہے اپنے بھائیصاحب ان کی تصویر تو بھائی لوگوں کانیند میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔یہ تصویر ہی ہے جس کو لوگ ووٹ دیدیتے ہیں ۔ باقی نا پارٹیوں نے کوئی پروگرام دینا ہے اور ناہی عوام نےاپنے ووٹ کی طاقت کوکسی پروگرام یا مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ جو بھی ووٹ مانگنے نکلتا ہے اپنے گلے میں کسی نا کسی کی تصویر لٹکا دیتا ہے اور ووٹ کا حقدار بن جاتا ہے۔
اور یہ ووٹ مانگنے والے اپنے گلے کی تصویر بھی بدلتےرہتے ہیں، کل جس نے گلے میں لٹکی تصویر کے بل بوتے پر آپ کا ووٹ لیا تھا، آج اس نے گلے میں اور تصویر لٹکائی ہوئی ہے۔ انہیں صرف معلوم ہوجائے کہ آجکل عوام کے دلوں پر کون سی تصویر راج کر رہی ہے ۔ اسی کو گلے میں لٹکائے نکل پڑتے ہیں۔ ویسے ان سے یہ بھی بعید نہیں کہ آپ کے ووٹ سے منتخب ہونے کے بعد بھی اگر وزارت شزارت کی امید مدھم پڑتی دکھائی دے تو منتخب ہونے کے بعد بھی گلے کی تصویر بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔
اور اب کی بار تو امیدوار اتنا بے یقینی کا شکار ہیں کہ قوم کو تبدیلی کے خواب دکھانے کے ساتھ ساتھ اور پارٹی کے اعلیٰ منصب پر ہوتے ہوئے بھی آزاد امیدوار کے طور پر ووٹ مانگنے نکل پڑے ہیں کہ بعد میں اگرگلے کی تصویر بدلنی پڑی گئی تو آزاد امیدوار کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ آزاد امیدوار تو ویسے ہی آزاد ہوتا ہے جو جب بھی چاہے کوئی بھی تصویر گلے میں لٹکانے کے لیے تیار رہتا ہے ۔شرط صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ اس کے صدقے وزیر کا منصب بھی نصیب ہو۔ خالی اسمبلی میں بیٹھ کر اونگھنے اور جماہیاں لینے کے لیے تو ووٹ نہیں لیتے۔
ویسے یہ ووٹ کی طاقت ہی ہے کہ جس نےاپنے مشرف بھائی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ نا اِدھر کے رہے ہیں، نا اُدھر کے۔بیچ میں کہیں بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔ جو لوگ پچھلی گلی سے آتے ہیں۔ ان کو پچھلی گلی سے ہی نکل لینا چاہیئے۔ لیکن انہیں بھی فیسبوک کے چاہنے والوں نے شاید یہ خواب دکھا دیا کہ وہ بھی ووٹ کے ذریعے اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کی تصویر بھی بہت سوں کے گلے کی زینت بنی، لیکن تب جب وردی بھی تھی تو کرسی بھی۔ اب تو صرف فیسبوک ہے۔ جس کے سہارے آپ کم از کم اقتدار تو حاصل نہیں کرسکتے۔
ویسے بھی اگر سوشل میڈیا پر اگر کسی کا راج ہے تو وہ اپنے خانصاحب ہیں۔ اب تو ان کی تصویر اور جناح کی تصویر ایک ہی ہوگئی ہے۔ لگتا ہے جناح نے پھر جنم لیا ہے اور تبدیلی کا خواب دکھانے والوں نے یہ نوید بھی دے ہی دی ہے کہ تین ہفتے بعد ہم نئے پاکستان میں ہونگے۔ چلیں تین ہفتے کا انتظار تو کر ہی سکتے ہیں۔ فیض صاحب تو یہ کہہ کے چلے گئے کہ ہم دیکھیں گے!لیکن لگتا ہے ہم اور آپ تو ضرور دیکھیں گے!اب تو صرف تین ہی ہفتے رہ گئے ہیں۔ بس ڈر صرف یہ ہے کے تین ہفتے سے پہلے کچھ دکھا ئی نا دے جائے۔