سن دو ہزار سات میں، ریاست اور عسکریت پسندوں کے درمیان، اسلام آباد کی لال مسجد کے اندرہونے والے کشت و خون کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کی رپورٹ حال ہی میں سامنے آچکی، جس میں فوج کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے ذمہ داری جنرل پرویز مشرف، شوکت عزیز اور اُس وقت کی وفاقی کابینہ پر عائد کی گئی ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ ریاست قتل کا مقدمہ درج کرے جیسا کہ ایک رکنی کمیشن نے تجویز دی، ہم یہ ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ آیا یہ سفارشات اس سارے معاملے کےاُن بعض پہلوؤں سے مطابقت رکھتی ہے جن کے سخت تجزیے کی ضرورت ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہیں تو اس طرح کے نہایت حساس معاملے میں، صرف ذمہ داروں کے تعین یا معاوضے کا معاملہ طے کرنے پر توجہ مرکوز کرنے سے زیادہ، آگے بڑھ کر تمام حوالوں سے تفتیش ہونی چاہیے تھی۔
رپورٹ سےآزادانہ طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ لال مسجد آپریشن کے تین اہم پہلو ہیں:
الف،عسکریت پسنوں سے مسجد کو پاک کرنے کے لیے ملٹری آپریشن کا وہ فیصلہ جس میں متعدد سویلین ہلاکتیں ہوئیں، بطور ادارہ فوج کا فیصلہ تھا نہ کہ مکمل طور پر جنرل پرویزمشرف کا جو اُس وقت فوج کے سربراہ تھے۔
ب، دارالحکومت میں ایسی صورتِ حال پیدا ہوچکی تھی کہ جس کے باعث اس طرح کا آپرشین ناگزیر ہوچکا تھا۔
ج، یہ سچ ہے کہ آپریشن کے لیے جواز موجود تھے تاہم آپریشن بُرے طریقے سے کیا گیا جس کےنتیجے میں کمپاؤنڈ کے اندر موجود تمام افراد ہلاک ہوئے۔
لال مسجد کے عسکریت پسندوں نے اسلام آباد کے قلب میں حکومت کی عملداری کو چیلنج کیا تھا۔ آپریشن سے قبل مسجد کے مدرسے میں زیرِ تعلیم طلبا و طالبات دارالحکومت میں اخلاقی پولیس کا کردارادا کررہے تھے، مسجد کےاندر شرعی عدالت قائم کی جاچکی تھی اور یہاں فوجی آپریشن سے قبل پولیس حتٰیٰ کہ نیم فوجی دستوں کے ساتھ بھی اُن کی جھڑپیں ہوچکی تھیں۔
عبادت گاہ کے اندر بھاری تعداد میں بھاری اسلحہ ذخیرہ کیا گیا، جسے عسکریت پسندوں نے محاصرے کے دوران استعمال کیا۔
اگرچہ میڈیا نےوسیع پیمانے پر نہایت گہرائی سے لال مسجد واقعے کی کوریج کی تھی تاہم اُن عسکریت پسندوں سے متعلق بہت کم معلومات سامنے آسکیں جو مسجد کمپاؤنڈ پر اپنے ایجنڈے سمیت قابض تھے۔
اس حوالے سے یہاں ایک وسیع تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس بات کا بھی جواب ملنا چاہیے کہ آپریشن کے دوران کمپاؤنڈ کےاندر کیا کچھ ہوا تھا اور ایسا کیا ہوا کہ فوج کو فوراً ایسے آپریشن کی ضرورت پیش آئی کہ جس میں دوسری طرف کے واقعات بیان کرنے کے لیے کوئی زندہ نہیں بچ سکا۔
اس بات کی صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ واقعے کی وسیع بنیاد پر تحقیقات ہو اور اس کے لیے فوجی حکام کو طلب کیا جائے گا۔
خامیوں سے پُرآپریشن اور وہ بھی جن کی دہشت گردانہ کارروائیاں ہاتھ سے نکل چکی تھیں، ان کے ذمہ داروں کے تعین سے قبل حقیقت اور افسانے کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہوگا۔