کیا ووٹ نہ ڈالنا گناہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر منظر نامہ کے دوسرے کنارے پر کھڑے علما انتخابات اور خود جمہوریت کے غیر اسلامی ہونے کے بارے میں بھی ضرور سوچیں گے، تاہم گذشتہ چند دہائیوں کےدوران اس سوچ میں بہت کچھ بدلاؤ آچکا ہے۔
بعض سرکردہ مذہبی جماعتوں نے مغربی طرزکی حامل جمہوریت کی ابتدائی طور پر کچھ مخالفت کی تھی تاہم بعد میں ان کی سوچ پلٹی اور وہ خود انتخابات میں حصہ لینے لگیں۔
تاہم، جہاں تک پاکستانیوں کی بات ہے تو اُن کے لیے اس طرح کے فتاویٰ بے نتیجہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ پچاس برسوں کے دوران بلاشبہ وہ جمہوریت کے موافق رہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ ان کے لیے ووٹ ڈالنا یا نہ ڈالنا کوئی مذہبی نوعیت کا مسئلہ رہا ہو۔
اس پس منظر میں، اسلام آباد میں جمعرات کو علما کانفرنس کےنتائج کو ضرور دلچسپی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔
اگر رضاکارانہ طور پر ووٹ ڈالنا گناہ نہیں تو پھر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے پر علما کیا موقف اختیار کریں گے؟
کیا ووٹ ڈال کر خواتین کسی گناہ کی مرتکب ہوتی ہیں یا پھر انہیں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکنے والے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں؟
پاکستان کے بعض علاقوں کے لیے یہ ایک مسئلہ ہے، جہاں خواتین کو حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس میں تقریباً تمام روایتی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شرکت کریں گی، انہیں اس حوالے سے ایک تصور دیناچاہیے۔
اگر اس کانفرنس سے پیشرفت ہوئی تو پھر ایک وسیع کنوینشن منعقد ہوگا، جس میں سعودی عرب اور جامعہ الازہر، مصر سمیت ملک بھر کے پانچ ہزار سے زائد علما شرکت کریں گے۔
آئیں، امید کرتے ہیں کہ علما کی یہ کانفرنس نشستند برخاستند تک محدود رہنے کے بجائے، جدید سیاسی اقدار کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری نقطہ نظر کی حمایت کرے گی۔
اس موقع پر پاکستان علما کونسل چالیس صفحات پر مشتمل کتابچہ بھی جاری کرے گا، جس میں انتخابی مسائل کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔
پاکستان علما کونسل کے کتابچے کا متن صورتِ حال کو زیادہ روشن خیالی کی طرف لے جارہا ہے۔ ایسے میں اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ روایت پسند علما اس حوالے سے کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔