رفّی خان جو کہ پیشہ سے ایڈز ہیلتھ ورکر ہیں اور جیا کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں کہ ان کہ پاس ایم اے کی دو ڈگریاں ہیں، نے آتے ہی کہا لوگ اکثر پوچھتے ہیں خواجہ سرا کمیونٹی کے حضرات سڑکوں پر بھیک کیوں مانگتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا “صرف اتنا ہے کہ ہم کیا کیا کر سکتے ہیں، ہم حکومت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر حکومت ہماری کمیونٹی کے ارکان کے لیے ایک پیشہ ورانہ تربیتی مرکز فراہم کردیتی ہے، تو پھر ہمارے لوگوں کو بھیک مانگنے یا دیگر قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں۔”
جیا کے نمائندوں کے مطابق، سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے، خواجہ سرا کمیونٹی سے مفت تعلیم، مفت صحت کی دیکھ بھال، اور ایک کمیونٹی سینٹر کا وعدہ کیا گیا تھا۔ (وعدہ کس نے کیا تھا؟) ایک کمیونٹی کے طور پر، اب ان کے پاس شناختی کارڈ ہے، اب وہ بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے فلاحی منصوبوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ حقوق جو انہوں نے حاصل کیے ہیں اُن کے باوجود، وہ کہتی ہیں، حکومت سندھ نے کبھی ان باتوں پر عملدرآمد نہیں کیا جو ان کی کمیونٹی کے لیے سود مند ثابت ہوتے۔ (انہوں نے عملدرآمد کیوں نہیں کیا)۔
ایک سال پہلے جو وعدہ خواجہ سراؤں سے کیا گیا تھا، وہ اب ان پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ جب بندیا اور صنم (ایک اور مخنث امیدوار جو سکھر سےانتخابات میں حصہ لے رہی ہیں) جیسے لوگوں نے دیکھا وہ جماعتیں جو یہ اقدامات اٹھا سکتی ہیں، ان کے منشور میں ان سب کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنی کمیونٹی کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کسی اپنے جیسے کو اپنا نمائندہ منتخب کریں۔
زہرش جو ایک خواجہ سرا کارکن اور ایک ھیلتھ ورکر ہیں، اس وقت جامعہ کراچی سے ایم اے مکمل کررہی ہیں، کہتی ہیں کہ یہ صرف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بے حسی کی بات نہیں بلکہ خواجہ سراؤں کو تعلیمی نظام میں منظم امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا “اگر بندیا جیت جاتی ہیں تو انہیں اپنی توجہ تعلیمی نظام پر مرکوز کرنی چاہیے، ہمیں اپنے ظاہر کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہم تعلیمی نظام میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یہاں تک کہ اب بعض اوقات میرے استاد مجھے کلاس سے باہر جانے کو کہہ دیتے ہیں۔”
ایک تبدیلی جس کی زہرش سنجیدگی سے درخواست کرتی ہیں کہ تعلیمی اداروں کے داخلہ فارمز میں تیسری جنس کے لیے ایک الگ خانہ ہونا چاہیے تا کہ انہیں مرد یا عورت میں سے زبردستی کسی ایک جنس کا انتخاب نہ کرنا پڑے۔
کون کس کے لیے ووٹ دے رہا ہے؟:
حقیقت تو یہ ہے پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ خواجہ سرا موجود ہیں مگر بد قسمتی سے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی دستاویزات کے مطابق صرف چھ سو ستاسی خواجہ سرا حتمی انتخابی فہرست میں درج ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ووٹر رجسٹریشن اس قدر کم کیوں ہے۔ جیا کے مطابق ابھی تک کئی خواجہ سرا شناختی کارڈز کا انتظار کررہے ہیں یا پھر وہ ابھی تک مرد کے طور پر رجسٹر ہیں۔
نادرا کے ترجمان ناز شعیب سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ “خواجہ سرا پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کے اندراج کے لیےکوئی طبی ثبوت درکار نہیں۔ ان کے طبقے، عقیدہ یا جنس کی تمیز کے بغیر رجسٹریشن کی سہولت تمام پاکستانیوں کے لیے موجود ہے ۔”
انہوں نے مزید کہا ستمبر اور اکتوبر میں نادرا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مل کر صوبائی اور ضلعی الیکشن کمیشن کے دفتروں میں خصوصی رجسٹریشن مراکز قائم کیے، مگر ووٹروں کو متحرک کرنے کے لیے تا کہ وہ اپنا اندراج انتخابی فہرستوں میں کروائیں، ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تھی۔
بندیا جیسے امیدوار خواجہ سرا کمیونٹی سے باہر کے افراد کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا “میرے حلقہ انتخاب میں جو لوگ مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں میں ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہوں۔”
وہ کہتی ہیں کہ ان سے رابطہ کرنے اور انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے زور دینے والوں کا زیادہ تر کا تعلق خواجہ سرا کمیونٹی سے نہیں ہے۔
“جب لوگوں کے مسائل ہوں گے۔ پانی، بجلی کے مسائل، گھٹیا درجے کی ادویات کے معاملات یا پھر جب انہیں مقامی پولیس کے پاس کسی مسئلےکے تحت جانا پڑتا ہے، مثال کے طور پر اگر کسی کا بچہ اغوا ہوجائے تو وہ ہمارے پاس آتا ہے، کیوں کہ ہمیں پتہ ہے کہ ان معاملات سے کیسے نمٹنا ہوتا ہے اور ہم ہمیشہ مقامی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔”
ان کی کمیونٹی نے گزشتہ انتخابات میں بھی ووٹ ڈالے تھے مگر مرد ووٹر کی حیثیت سے۔ اس مرتبہ امید ہے کہ ایک واضح تبدیلی آئے گی اور وہ ایک تیسری جنس کے طور پر انتخابات میں حصہ لیں گے۔
ڈان ڈاٹ کام نے ان سے اور جیا کی ایک اور نمائندہ سے دریافت کیا کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں کس کو ووٹ دیا تھا۔ بندیا نے زوردار قہقہے کے ساتھ کہا “میں یہ نہیں بتاؤں گی کیوں کہ میں خود اس بار انتخابات میں حصہ لے رہی ہوں۔ مگر میں اتنا ضرور کہوں گی کہ اب ووٹ بےنظیر بھٹو اور متحدہ قومی موؤمنٹ کے درمیان تقسیم ہوگیا ہے۔ ہم بے نظیر کو ووٹ دیتے تھے کیوں کہ وہ بھی ہماری ہی طرح ‘پیری فقیری’ کا احترام کرتیں تھیں۔ جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے انہیں اس لیے ووٹ دیتے تھے کہ وہ یہاں مضبوط ہیں۔ اگر آپ ان کے مقامی دفتر جائیں تو آپ کے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔”
بندیا اور صنم جیسے امیدواروں کے لیے منتخب ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کے وہ جس کمیونٹی کی نمائندگی کر رہی ہیں، ان کی تعداد صرف پانچ لاکھ ہے اور وہ کسی ایک حلقہ میں نہیں رہتے۔ رفّی نے وضاحت کی کہ وہ بندیا کو ووٹ نہیں دے سکتیں کیوں کہ وہ بندیا کے حلقے میں رجسٹر نہیں ہیں۔ “اگر ہمیں اپنے امیدوار کے لیے کسی بھی حلقے سے ووٹ کاسٹ کرنے کا حق ملتا تو ہم پارلیمنٹ میں اپنا نمائندہ مقرر کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔”
اس بدقسمت صورتحال میں جیا سوچتی ہیں کہ وہ اس شخص کو ووٹ دیں گی جو ان کے خیال میں ان کی کمیونٹی کے لیے کام کرے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ تعلیمی نظام میں بہتری ضروری ہے تاکہ وہ خواجہ سراؤں کی پہنچ میں آجائے، اس کے علاوہ لوگوں میں ان کی کمیونٹی کے بارے میں تعلیمی نصاب کے ذریعے شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
“خواجہ سراؤں نے جنگوں میں حصہ لیا اور جنگیں جیتیں بھی۔ تاریخ کی کتابوں میں لوگوں کے لیے سبق موجود ہے کہ ہم بھی معاشرے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔اگرچہ معاشرے میں امتیازی سلوک میں کمی آئی ہے مگر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت خواجہ سراؤں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم کرے جہاں وہ بیوٹیشن، درزی یا باورچی کی تربیت حاصل کرسکیں۔ یہ ان کو ایک باعزت پیشہ فراہم کرے گا اور انہیں سڑکوں پر بھیک مانگنے جیسی بُرائی سے دور لے جائے گا۔
خواجہ سرا کمیونٹی کی ایک اور رکن صائمہ فرحان نے شرماتے ہوئے کہا “اگر موقع دیا جائے تو ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔”
لیکن بندیا کا پیغام زیادہ آفاقی ہے۔ وہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی محافظ اور طرفدار ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کا پیغام بنا کسی جنسی امتیاز کے ہر کسی کے لیے ہے۔
“اپنا ووٹ دیں، مگر اس لیے نہیں کہ کوئی آپ کو بریانی یا پیسے دے۔ سوچ سمجھ کے فیصلہ کریں آپ کا ایک ووٹ کسی اچھے انسان کو جیتا سکتا ہے یا ہرا سکتا ہے۔”
جب ان سے ان کے جیتنے کے امکانات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے انتہائی سکون و اطمینان سے کہا “میں اسی دن جیت گئی تھی جب میں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ وہ ہی میری جیت تھی۔”
ترجمہ: تابش کفیلی