16 دسمبر 1920ء:
چین کے علاقے ننگ سیا میں 7.8 شدت کے اس زلزلے میں 2 لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور صرف ہائی اوان کاؤنٹی میں 73 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ لانج اور ہوئننگ کے شہروں میں تقریباً تمام مکان مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے جبکہ سات صوبوں کو شدید ترین نقصان پہنچا تھا۔ یہ خوفناک زلزلہ مغرب میں کانسو زلزلے کے نام سے مشہور ہے۔
یکم ستمبر 1923ء:
جاپان میں آنے والے اس زلزلے سے دارالحکومت ٹوکیو اور یوکوہاما کو شدید نقصان پہنچا تھا اور زلزلے کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ان دونوں شہروں میں موجود تقریباً سات لاکھ مکانوں میں سے چار لاکھ نذر آتش ہو گئے تھے، گریٹ ٹوکیو ارتھ کوئیک کے نام سے مشہور اس زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.9 تھی اور اس میں ایک لاکھ 42 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
5 اکتوبر 1948ء:
1948ء میں ترکمانستان کے علاقے اشک آباد میں تباہی پھیلانے والے اس زلزلے میں ایک لاکھ دس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.3 تھی۔ اس کےنتیجے میں اینٹوں کے بنے تمام گھر زمین بوس جبکہ کنکریٹ کی بنی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس قدرتی آفت سے ایران کے کچھ علاقوں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ وہاں متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔
12 مئی 2008ء:
چین میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے سے 87 ہزار 587 افراد ہلاک ہو گئے، زلزلے سے سب سے زیادہ تباہی چینگدو لیزیان گوانگ یان کے علاقے میں ہوئی تھیؕ۔ جبکہ مجموعی طور پر دس صوبوں میں ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے تھے۔ 7.9 شدت کے اس زلزلے سے پچاس لاکھ سے زائد افراد بے گھر، 53 لاکھ عمارتیں تباہ جبکہ دو کروڑ عمارتوں اور تین ڈیموں کو نقصان پہنچا تھا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ 86 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔ بیچوان، ڈی جوانگ یان، وولونگ اور ینگ زیو کے علاقے مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔
8 اکتوبر 2005ء:
2005 ءمیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آنے والے اس قیامت خیز زلزلے میں 86 ہزار افراد ہلاک اور 70 ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ جبکہ 7.6 شدت کے اس زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ مظفر آباد سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، جہاں متعدد گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔
اس زلزلے سے پاکستان سمیت ہندوستان، چین، افغانستان، ایران اور جنوبی ایشیا کے بہت سے ملکوں میں بھی نقصان پہنچا تھا۔متاثرہ علاقوں میں تباہی کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ متعدد افراد آج بھی بےیارو مددگار ہیں۔
28 دسمبر 1908ء:
اٹلی میں آنے والے اس زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں میسینا کی 40 فیصد اور ریگیو دی کیلیبریا کی 25 فیصد آبادی موت کی نیند سو گئی تھی۔ اس زلزلے سے مجموعی طور پر 72 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔
شدت کے اعتبار سے ہولناک ترین زلزلے:
22 مئی 1960ء:
چلی میں آنے والا یہ زلزلہ اب تک ریکارڈ کردہ شدید ترین زلزلہ ہے جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 9.5 ریکارڈ کی گئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ چلی سمیت ہوائی، جاپان، فلپائن، مشرقی نیوزی لینڈ، جنوبی مشرقی آسٹریلیا اور الاسکا کے ساحلوں پر سونامی بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر اس آفت میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے چھ ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ اس میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ 2010 کے لحاظ سے 5.8 ارب ڈالر تک لگایا گیا تھا۔
28 مارچ 1964ء:
گریٹ الاسکا ارتھ کوئیک کے نام سے مشہور زلزلہ شدت کے اعتبار سے تاریخ کا دوسرا بدترین زلزلہ قرار دیا جاتا ہے، جس کی شدت 9.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس زلزلے کے باعث زمین اپنی جگہ سے 11 میٹر تک بلند ہوئی تھی جبکہ سمندر میں آنے والے سونامی کے نتیجے میں 67 میٹر بلند لہریں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ الاسکا زلزلے میں 128 افراد ہلاک اور اس میں 311 ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
26 دسمبر2004ء:
انڈونیشیا کے جزیرے اور ایشیائی ساحلوں پر آنے والا یہ زلزلہ اور سونامی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جس کی شدت 9.1 ریکارڈ کی گئی تھی، اس حوالے سے تفصیلات اوپر درج ہیں۔
4 نومبر 1952ء:
اس زلزلے کا مرکز جزیرہ نما روس کا آتش فشاں تھا لیکن اس سے سب سے زیادہ تباہی ہوائی کے جزیرے پر آئی تھی۔ ریکٹر اسکیل پر 9 شدت کے اس زلزلے سے حیران کن طور پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن اس سے لاکھوں ڈالر مالی نقصان ہوا تھا۔
13 اگست 1868 ءاور 26 جنوری 1700ء:
مختلف ادوار میں آنے والے ان دونوں زلزلوں کی شدت بھی 9 تھی۔ 1868ء میں پیرو(جو اب چلّی کا حصہ ہے) میں اس زلزلے سے نقصان پہنچا تھا،جنوبی امریکہ کی طرح ہوائی میں بھی تباہی ہوئی تھی جس سے ایریکیوا شہر تباہ ہو گیا تھا جبکہ 25 ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔
سن 1970 میں آنے والا زلزلہ براعظم شمالی امریکہ کی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ تصور کیا جاتا ہے اور اس میں ساحلی علاقے پچینا کی آبادی مکمل طور پر پانی کی نذر ہو گئی تھی۔
27 فروری 2010ء:
چلی میں آنے والے اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.8 نوٹ کی گئی تھی۔ اس آفت میں 521 افراد ہلاک، 12 ہزار زخمی اور آٹھ لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے تھے، اسے سولہویں صدی کے بعد خطے کا سب سے بڑا زلزلہ قرار دیا گیا تھا اور اس میں 30 ارب ڈالر نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
13 جنوری 1906ء:
ایکواڈور اور کولمبیا میں بھی گزشتہ صدی کے چھٹے سال میں 8.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا، اس کے نتیجے میں آنے والے سونامی سے 500 جبکہ سان فرانسسکو کے ساحلی علاقوں میں ڈیڑھ ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ لاکھوں ڈالرز کا نقصان بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔
یکم نومبر 1755ء:
پرتگالی دارالحکومت لسبن میں اس زلزلے میں شہر کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی ہلاک ہو گئی تھی اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 8.7 ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں شمالی افریقہ، فرانس اور شمالی اٹلی میں سونامی بھی آیا تھا۔
15 اگست 1950ء:
آسام اور تبت علاقے میں تباہی پھیلانے والے اس زلزلے کی شدت بھی 8.8 تھی، اس سے سب سے زیادہ تباہی ہندوستانی ریاست آسام میں ہوئی تھی، جبکہ تبت میں 70 گاؤں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا تھا۔ زلزلے اور لینڈ سلائیڈنگ سے اس خطے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد موت کی ابدی نیند سو گئے تھے۔ اس زلزلے کے بعد متعدد سیلاب آئے تھے جبکہ آٹھ دن بعد ایک جھٹکے سے دریائے سبان سری پر واقع ڈیم ٹوٹ گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں سات میٹر بلند لہرے وجود میں آئی تھیں جو بہت سے گاؤں بہا لے گئی تھیں۔