ذرائع ابلاغ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حوالے سے ایک خبر نے نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ اہلکار کا نام لیے بغیر کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات میں امیدوار، مذہب یا فرقے کے نام پر ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرتے ہوئے ووٹ نہیں مانگ سکیں گے۔
سیاسی جماعتیں یا امیدوار مذہب، نسل یا ذات کی بنیاد پر بھی انتخابی مہم نہیں چلاسکیں گے، نیز ایسی تقاریرکی ہرگز اجازت نہیں ہوگی، جس میں فرقہ وارانہ یا نسلی بنیاد پر مواد موجود ہو۔
جتنے نکات بیان کیے گئے، وہ تمام الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کا حصہ ہیں اور خود کمیشن نے بھی وضاحت کرتے ہوئے اس حوالے سے نیا ضابطہ جاری کرنے کی تردید کی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی خبروں سے مزید نئے سوال اٹھے ہیں۔
اس وقت اسلامی نظریات کی بنیاد پر استوار متعدد جماعتیں ایسی ہیں جو مختلف پیمانے پر عوام میں اپنا اثر رکھتی ہیں اور وہ انتخابات میں حصہ لینے بھی جارہی ہیں۔
اگر کوئی ضابطہ یہ تجویز کرے کہ مذہب کی بنیاد پر جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتیں تو پھر پہلی بات یہ کہ انہیں رجسٹرڈ ہی کیوں کیا گیا تھا؟
اگرچہ اصولی طور پر یہ بڑا نیک مقصد ہے لیکن اگراس ضابطے کا مطلب نفرتوں کو پھیلنے سے روکنا ہے تو پھر اس پر عمل درآمد کیسے یقینی بنایا جائے گا؟
آخر کار، بعض ایسی مذہبی جماعتیں جو سخت گیر تصور کی جاتی ہیں انہوں نے انتخابی اتحاد قائم کرلیے ہیں، جن میں بعض کالعدم قرار دیے گئے گروہ بھی شامل ہیں، نیز ایسے بھی گروہ ہیں جن کی مہم نسلی بنیادوں پر استوار ہے، وہ بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ کیا اس طرح کے گروہ ضابطے کے تحت حصہ لینے کے اہل ہیں یا نہیں؟
ریٹرنگ افسران ضابطہ اخلاق نافذ کرانے کے ذمہ دار تھے لیکن اس کے بجائے وہ عقائد اور دوسرے پہلوؤں پر مکمل توجہ مرکوز کیے انہیں نافذ کرنے کی کوشش کرتے رہے تو کیا اس بات کی اُنہیں اجازت تھی؟
یہاں واضح کیا جانا چاہیے کہ نفرت کے ایجنڈے پر مبنی مہم اور سیاسی زندگی میں مذہب کی علامت کو استعمال کرتے ہوئے، مظلوم کمیونٹیز کی نمائندگی کے دعوے میں فرق موجود ہے۔
مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب گروہ یا انفرادی سطح پر، رسوخ حاصل کرنے کے لیے نفرت انگیز تقاریر کا سہارا لیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں اس طرح کے عناصر کی کوئی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔
ہم محسوس کرتے ہیں کہ عقیدے کی بنیاد پر سیاست کا معاملہ اگلی پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے، جو مذہب اور سیاست کے مکسچر پر خود بحث کر کے یہ طے کرے کہ آیا انہیں اس بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی شقوں میں موجود، اوپر بیان کردہ جن پابندیوں کا اظہار کیا ہے، اس کے اطلاق سے قبل سیاست میں مذہب، اسلامی نظریے اور نظریہ پاکستان پر کھلی بحث کے ذریعے اتفاقِ رائے تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
شاید اس وقت سب سے اہم اور فوری ذمہ داری ایک ایسے موثر طریقہ کار کی ہے کہ جس کے ذریعے انتخابی مہم پر نظر رکھی جاسکے تاکہ امیدوار فرقے کی بنیاد پر اختلافات کو، چند ووٹ حاصل کرنے کے لیے استحصال کا ذریعہ نہ بناسکیں۔