کتنا حسین اتفاق ہے کہ اس مرتبہ بہار اور الیکشن کا موسم ایک ساتھ آپہنچا ہے۔
مجھے ان دونوں موسموں میں بڑی مماثلت محسوس ہوتی ہے۔ خزاں اور پھر کڑاکے کی سردی کے بعد جب ماحول کا رنگ تبدیل ہونے لگتا ہے تو کیا حیوان اور کیا انسان، سب پر ایک سرشاری طاری ہونے لگتی ہے۔ ہر طرف سبزہ اُگنے لگتا ہے اور برہنہ درخت سبز پتوں کا لباس زیب تن کرنے لگتے ہیں۔ پھولوں میں ایک بار پھر زندگی دوڑنے لگتی ہے اور ہوا ان پھولوں سے مہک چرا کے اُسے چار سو بکھیرنے لگتی ہے۔ پرندے سریلی موسیقی کی تانیں الاپنا شروع کرتے ہیں اور عشّاق آنکھوں میں سہانے خواب سجائے آنے والے وصال کے لمحوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ٹھنڈی آہیں بھرنے لگتے ہیں۔
آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ آج مجھ پر کس طرح کا دورہ پڑا ہے جو میں ایسی گھسی پٹی شاعرانہ لفاظی پہ اُتر آیا ہوں۔ ہر گز یہ مت سمجھئے گا کہ خدا نخواستہ میرے اندر کسی مرحوم شاعر کی روح سما گئی ہے یا مجھ پر کسی جن بھوت کا سایہ پڑ گیا ہے بلکہ جب سے حکومت نے نئے انتخابات کا شوشا چھوڑا ہے مجھے ہر طرف وہی کچھ نظر آرہا ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔
بہار تو ہر سال آتی ہے لیکن الیکشن ہر سال نہیں ہوتے۔ پہلے تو الیکشن کا موسم کبھی بھی آسکتا تھا بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ رات آپ ٹی وی پر کسی وزیر اعظم کی بلیک اینڈ وائٹ تقریر سن کر آرام سے سوتے لیکن صبح جاگنے پر پتہ چلتا کہ موصوف اب سابق وزیر اعظم ہو چکے ہیں اور جیل کے کسی کونے میں خیریت سے پڑے ہیں۔
تب کچھ دنوں تک اکلوتے اور لاڈلے پی ٹی وی پر قرآن کی آیتوں، رسول خدا کے فرامین، قائداعظم کے اقوال اور علامہ اقبال کے اشعار کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی کہ کرپٹ اور نالائق حکومت کی برطرفی کا جو قدم اُٹھایا گیا ہے وہ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کا مکمل عکاس ہے۔
پھر کبھی الیکشن تو کبھی سلیکشن کا ڈرامہ رچایا جاتا اور کسی نہ کسی بہانے عوام کا لہو گرم رکھنے کی ترکیبیں نکالی جاتیں۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جمہوریت طاقتور ہوتی گئی اور اتنی طاقتور ہوئی کہ جمہوری حکمرانوں نے غیر جمہوری قراردے کر نچلی سطح کے انتخابی عمل پر ہی پابندی لگادی ورنہ کونسلرز یا ناظمین کے انتخابات کے دوران بھی عوام کو کچھ ہلہ گلہ دیکھنے کو مل ہی جاتاتھا۔
اب اسے جمہوریت کی مضبوطی ہی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے اپنے پانچ سال ”انتہائی کامیابی“ سے گزار دئیے۔ یہ الگ بات ہے کہ زرداری اینڈ کمپنی کے یہ پانچ سال میرے جیسے فرسٹریٹڈ شخص کے لئے پچاس سال سے ہر گز کم نہیں تھے۔ ویسے بھی ان پانچ سالوں کے دوران میرے بالوں کی سفیدی اور چہرے کی جھریوں میں جتنا اضافہ ہوا اسے دیکھ کر ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ سال مجھ پر کتنے بھاری گزرے؟
میرے جیسے تو لاکھوں ہونگے جو ان سالوں کے نقوش چہرے پر سجائے زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کا کیا جو بے خبری میں مارے گئے۔ ان مَردوں، عورتوں اور معصوم بچوں کی کہانی کون سنائے گا جن کے جسموں کو بموں کے زریعے چیتھڑوں میں تبدیل کیا گیا،ان ماؤں کا درد کون بیان کرے گا جنہوں نے بچوں کو بھوک سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانے کی خاطر انہی بھوکے بچوں سمیت ٹرین کے نیچے کود کر خودکشیاں کرلیں اور ان کے قصے کون لکھے گاجو۔۔۔؟
چلیں جانے بھی دیں،ان باتوں کو دہرانے کا فائدہ ہی کیا جن کو سن کے خواہ مخواہ موڈ خراب ہوں؟ اس لئے پھر سے موسم بہا ر کی بات کرتے ہیں۔ یہی تو وہ موسم ہوتا ہے جب میدانوں میں کچھ موسمی قسم کے پھول پودے بھی اُگ آتے ہیں ان میں مختلف اقسام کی کھمبیاں بھی ہوتی ہیں جو راتوں رات زمین سے اپنا سر نکال لیتی ہیں۔ یہ دیکھنے میں کافی خوبصورت ہوتی ہیں لیکن بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ ان میں اکثر زہر بھی بھرا ہوتا ہے۔
الیکشن کے موسم کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس دوران بھی جہاں کچھ پرانے گملے اپنی بہار دکھانا شروع کرتے ہیں وہاں کچھ نئے پودے بھی سر اُٹھائے اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگتے ہیں۔ یقیناَ آپ میری بات سمجھ گئے ہونگے۔ میرا اشارہ ان امیدواروں کی طرف ہے جو آنکھوں میں سہانے سپنے سجائے الیکشن میں کود پڑتے ہیں۔
ان میں کئی اقسام کے لوگ ہوتے ہیں۔ پیشہ ور سیاست دانوں سے لیکر سرمایہ دار، جاگیردار، شوقیہ اور ٹائم پاس کے علاوہ برادری کے مکھیا اور انقلاب کی خواہش رکھنے والے خوش گمان دانشور تک۔ ان سب میں چند ایک باتوں کے علاوہ باقی تمام باتیں مشترک ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر الیکشن کے قریب آتے ہی ان کے تیور بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہونٹوں پہ ایک مستقل مسکراہٹ رقصاں رہنے لگتی ہے جو ان کی خوش اخلاقی کی دلیل ہوتی ہے،کپڑوں کی تراش خراش میں بھی بقدر توفیق تبدیلی نظر آنے لگتی ہے، لوگوں کے غم اور خوشی میں شریک ہونے کو یہ اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں لہٰذا جس گھر میں بھیڑ دیکھتے ہیں فوراَ گھس جاتے ہیں یہ دیکھے بنا کہ گھر میں شادی ہو رہی ہے یا فاتحہ پڑھا جا رہا ہے۔ اب اتنا تو وہ سمجھتے ہی ہیں کہ کس موقع پر کیسا ری ایکشن دینا چاہئے (آپ بے شک اسے ایکسپریشن کہہ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا)۔ لیکن کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے اس لئے ایسے مواقع پر بھول چوک کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔
اب آئیے زرا ان امیدواروں کے اشتہارات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ بہت ساری باتیں اور عبارتیں یہاں بھی آپ کو مشترک نظر آئیں گی؛
”بے داغ ماضی کا مالک، اعلیٰ تعلیم یافتہ، غریبوں کا ہمدرد، آپکی امنگوں کا ترجمان، نڈر، بیباک اور آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار!“
نعروں کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہوگی؛
”آئیگا بھئی آئیگا، جیتے گا بھئی جیتے گا، جب تک سورج چاند رہے گا، سوکھی روٹی کھائیں گے اور قدم بڑھاو“ وغیرہ وغیرہ۔ یہ نعرے کسی بھی زبان میں ہو سکتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی پسندیدہ امیدوار کے نام کا تڑکا لگایا جاسکتا ہے۔
میرا بس چلے تو کام کاج سے ایک مہینے کی چھٹی لیکرگلی گلی گھومتا رہوں، ان امیدواروں کے جلسے سنوں اور جلوس دیکھوں۔ شاید اس طرح میں اس ذہنی کوفت سے بھی کچھ چھٹکارا حاصل کر ہی لوں جو پچھلے پانچ سالوں سے مجھے لاحق ہے۔ اور پھران امیدواروں کا بھی تو کوئی بھروسہ نہیں، نہ جانے ان کا دوبارہ کب دیدار نصیب ہوں کیونکہ الیکشن کے ختم ہوتے ہی خوش اخلاقی کا یہ موسم بھی ختم ہوجائے گا اور پھر وہی روکھے چہرے ہونگے، وہی بوریت ہوگی، وہی شب و روز ہونگے اور وہی ہماری فرسٹریشن۔
لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد بھی نہ صرف کسی کی خوش اخلاقی برقرار رہے بلکہ چہرے پر مسکراہٹ بھی سجی رہے؟ بالکل ہو سکتا ہے۔ میں خود ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو اسلم رئیسانی کی کابینہ میں وزیر تھے۔ اب کس محکمے کے وزیر تھے اس کا علم خود انہیں بھی نہیں تھا۔ اس میں انکا اپنا کوئی قصور بھی نہیں تھا کیوں کہ اسلم رئیسانی نے ساٹھ لوگوں کو وزارتیں اور مشاورتیں دینے کا وعدہ کیا تھا جبکہ محکموں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لئے پہلے اس نے کئی محکموں کے حصے بخرے کئے تاکہ زیادہ سے زیادہ وزیر کھپائے جاسکیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی محکمے کے کئی وزیر سامنے آگئے۔ پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو ان میں سے چند ایک کو کچھ مہینوں کے لئے کسی عارضی پراجیکٹ کا وزیر بنادیا گیا جبکہ باقیوں کو وزیر بے محکمہ کی حیثیت دی گئی۔ وہ بھی انہی وزیروں میں سے ایک تھے۔ کسی عقلمند نے اُنہیں مشورہ دیا کہ لوگوں کے مسائل وہ ویسے بھی حل نہیں کرسکتے اس لئے بہتر ہے کہ وہ ہر ایرے غیرے سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آیا کریں تاکہ کچھ عزت بنی رہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں ایک پرائیویٹ سیکریٹری کے علاوہ کہیں آنے جانے کے لئے ایک گاڑی بمعہ ڈرائیور اور رعب ڈالنے کے لئے ایک گن مین دیا گیا تھا۔ اب وزیر موصوف کاکام ہی یہی تھا کہ وہ دن بھراس کھوج میں رہتے کہ کب کس کا انتقال ہوا، تدفین کب ہوگی، کب کس کا سوئم یا چہلم ہے، کس کی منگنی یا شادی میں شرکت کرنی ہے اور کہاں فیتہ کاٹنا ہے؟
وہ ہر ایرے غیرے سے انتہائی اخلاق سے پیش آتے اور ہر نتھو خیرے سے پر تپاک سلام دعا کرتے حتیٰ کہ کہیں تعزیت کے لئے بھی جاتے تو چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ سجی رہتی۔ جلد ہی لوگ ان کے اتنے گرویدہ ہوگئے کہ انہیں وزیر خوش اخلاقی کا خطاب دے ڈالا۔ کچھ لوگ انہیں وزیر سلام دعا اور کچھ وزیر تعزیت بھی کہنے لگے۔ یوں موصوف مختصر عرصے میں بہ یک وقت کئی محکموں کے وزیر بن گئے۔
ایک غیر سرکاری اور انتہائی غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق مزکورہ وزیر نے پچھلے پانچ سالوں کے دوران تقریبا 360 میتوں کی تدفین میں حصہ لیا، 479 کے قریب شادی اور منگنی کی تقاریب میں شرکت کی، 80 فیتے کاٹے اور 135 بار تاش، کیرم، لوڈو اور سنگ گیرگ(ایک مقامی کھیل) کے مقابلوں میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔
سنا ہے کہ وہ اس بار پھر الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ انہیں مکمل یقین ہے کہ ان کی گزشتہ کار کردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگ پھر اُنہیں ووٹ دیں گے۔ لیکن نہ جانے کیوں اس مرتبہ ان کے چہرے پر معمولی مسکراہٹ تک نہیں بلکہ ان کا منہ لٹکا ہوا ہے اور چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں؟حالانکہ بہار کا موسم ہے اور الیکشن بھی قریب ہے۔ مجھے تو ہر طرف نعرے ہی نعرے سنائی دے رہے ہیں؛
جیتے گا بھئی جیتے گا!
ساتھ ہی کہیں سے ایک گانے کی آواز بھی آرہی ہے جس کے بول ہیں؛
آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے، تو چھٹی لے کے آجا بالما!
نوٹ. الیکشن میں حصہ لینے والے اُمیدواروں کا اس مضمون سے متفق ہونا بالکل بھی ضروری نہیں --مصنف