نقطہ نظر

خاندانی سیاست، حقیقی قیادت؟

پاکستانی پارلیمانی سیاست میں ایک سو دو سیاسی خاندان اٹھارہ کروڑ عوام کے 'نمائندہ' ہیں۔

اُس وقت بلاول بھٹو  زرداری کی عمر صرف اُنیس برس تھی، جب انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرپرسن نامزد کیا گیا۔ سیاسی میراث کے منطر نامے پر یہ کوئی نئی بات نہیں، بلاول کی پیشرفت عین فطری تھی۔

اُس کے بعد جو مسائل درپیش ہوں گے اور جس طرح وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹرز کو اپنی طرف رکھیں گے، اس سے ان کی سیاسی شناخت بنے گی، جیسا کہ خود ان کی والدہ کے ساتھ بھی ہوچکا۔ وہ صرف چوبیس برس کی تھیں، جب حالات کے جبر نے انہیں سیاست کی طرف دھکیلا۔

پاکستان کی انتخابی سیاست پر سیاسی خاندان مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سبکدوش ہونے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں لگ بھگ ایک سو دو ایسے خاندان تھے جو عوام کی نمائندگی کے دعویدار تھے۔

سیاسی بقا کے لیے وفاداریوں کی تبدیلی اور نئے اتحادوں کی تشکیل بھی غیر معمولی نہیں: سبکدوش حکومت میں چوہدری شجاعت حسین کی جماعت مسلم لیگ ق اتحادی تھی۔ یہ وہی ہیں، جنہوں نے ایک مرتبہ جنرل پرویز مشرف کی حمایت اور ان کی سیاسی خدمت بھی کی تھی۔

خاندانی سیاست کا انحصار سیاسی ورثہ، دولت اور زمین پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں، بالخصوص سیاسی جماعتیں خاندانوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں، ذاتی شناخت حاصل کی جاتی ہے، سیاسی مہم پر پیسہ خرچ کرتی ہیں اور جب اپوزیشن میں ہوں تو قربانیاں دینے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں۔

سیاسی وراثت کے حامل، جیسا کہ پاکستان میں بھٹو اور ہندوستان میں نہرو خاندان، جمہوریت کے متعلق سراب تعمیر کرتے ہیں، جہاں سیاست پارٹی نظریات یا پالیسی کے بجائے شخصیت، خاندان، حالات اور وفاداری پر استوارہوتی ہے۔

جب کہیں پارٹی کے اندر الیکشن کے ذریعے خاندانی سیاسی تسلط ختم کرنے کا وقت آتا ہے تو متعدد وجوہات کی بنا پر ایسی متبادل قیادت مفقود ہوجاتی ہے جو ان کے خلاف اٹھ کر حقیقی جمہوریت کی آبیاری کرسکے۔

مغربی مصنفہ وکٹوریا شفیلڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا یہی راستا ہے کہ 'منتخب رہنماؤں کا قتل بند کیا جائے۔'

اس ضمن میں ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سحر انگیز سیاستدانوں کے لیے جواز کمزور جمہوریت ہے۔ خواتین سیاستدانوں کو آگے بڑھ کر خود کو اُس صورت میں منوانا چاہیے کہ جب مرکزیت کی حامل سیاسی جماعتوں کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے مانوس چہروں کی ضرورت پڑتی ہے۔

پاکستان میں خاندانی سیاست کا یہ نظام قیادت کے بحران کا بھی بڑا سبب ہے۔ جس کے باعث فوجی مداخلتیں، اُن کے ہاتھوں استعمال ہونے، پارٹی کے اندر جمہوری طریقوں سے انتخابات نہ کیے جانے اور ووٹرز سے کیے وعدے نہ پورے کرنے کے سبب، سیاسی و سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ یوں اگلی بار ووٹر سوالات اٹھاتا نظر آتا ہے۔

پاکستان میں سیاسی خاندانوں، جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ۔ نواز، کا مطمئع نظر یہی ہے کہ اقتدار کو دولت کے ڈھیر میں حیران کُن اضافے کے لیے استعمال کیا جاسکے اور وہ بھی نہایت کم عوامی خدمات کی قیمت پر۔

جب آکسفرڈ کے تعلیم یافتہ ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو پورے ملک میں انہیں توجہ حاصل ہوئی۔ انہیں بے شمار کٹر حامی ملے، ان میں سے کئی کی نسلیں اب تک بھٹو خاندان کی سخت حامی ہیں۔

جب بینظیر بھٹو خود دساختہ جلاوطنی ترک کر کے وطن لوٹیں تو اُن کے گرد حفاطتی دیوار جیالے کارکنوں کی تھی، جن میں سے متعدد، بم دھماکے میں اپنی جانیں کھو بیٹھے۔

محترمہ کی حفاطت کے لیے، اُن کے گرد انسانی دیوار قائم کرنے والے محافظوں میں سے زیادہ تر لیاری سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے کارکن تھے۔

لیاری، کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا نہایت مضبوط گڑھ رہا ہے لیکن اب جیالوں کی اگلی نسل سے تعلق رکھنے والے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے حقوق نہیں ملے، ملازمتیں نہیں دی گئیں اور اب نئی قیادت کے تحت، انہیں یہاں قابلِ محسوس طور پر، کافی کم حمایت حاصل رہ گئی ہے۔

گولیوں کے نشانات والے لیاری کے در و دیوار اس بات کا اظہار ہیں کہ نئی نسل مبینہ سیاسی تعلق کے ساتھ جزوی طور پر مقامی گینگسٹرز کے ساتھ ہیں۔ روایتی وابستگیوں میں تبدیلی کی وجہ، یہاں کے سماجی و معاشی حالات کو برسوں تک نظر انداز کیے جانا ہے۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اگر قیادت صوبائی، ضلع اوراس سے نچلی سطح سمیت خود پارٹی کے اندر (گہرائی) تک اپنے اقتدار کے ثمرات منتقل نہیں کرتی تو وہ پھر تنہا پڑنے لگتی ہے۔

اگر موثر قیادت کے لیے تجربہ اور ذمہ داری ضروری ہے تو پھر اچانک ابھرنے والی قیادتیں، جیسے بلاول بھٹو، مریم نواز شریف، حمزہ شریف وغیرہ، راتوں رات اپنی جماعتوں کے حقیقی سربراہ نہیں بن سکتے۔

حقیقی قیادت کے لیے انہیں بنیادی حقوق کی فراہمی کا سبق سیکھنا ہوگا۔ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں ووٹرز کو عام انتخابی وعدوں اور شخصیت کا سحر زیادہ عرصے تک جکڑے نہیں رہ سکتا۔

اگرچہ محترمہ بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا سیاست میں شمولیت سے پہلے علم اور جہاں داری کا تجربہ حاصل کرے تاہم آکسفرڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم بلاول بھٹو ۔ زرداری ایک 'ریڈی میڈ' سیاست دان ہیں۔

اسی طرح، ہندوستان میں بیالس سالہ راہول گاندھی حال ہی میں سیاست کے افق پر کانگریس کے نائب صدر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں، جو اکتوبر سن دو ہزار چودہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں، کانگریس کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے ممکنہ اور مضبوط امیدوار ہوں گے۔

ان دونوں میں، راہول بڑی عمر کے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ خاموش طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ روایتی سیاستدانوں سے ذرا ہٹ کر ہیں۔

یہ انتخابی مہم کے لیے روایتی سیاستدانوں کی طرح دور دراز کے علاقوں کا سفر نہیں کرسکتے۔ عام طور پر لوگوں سے میل جول سے گریزاں ہیں۔

اس کے علاوہ دونوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنے خاندانی 'بزنس' سے وابستہ ہوگئے لیکن سیاسی محاذ کی صفِ اول پہ آکر کھڑا ہونے کے لیے دوسروں کی رفتار نہایت سست ہے، انہیں ابھی اپنے سیاسی پتّے دکھانا ہیں۔

خاندان کو پہنچننے والے نقصانات کے سوا، ان کی سیاسی پرورش سے متعلق سونیا گاندھی کے استدلال کا علم نہیں تاہم راہول گاندھی اب بھی اپنی والدہ کے زیرِ سایہ ہیں۔ راہول گاندھی کی تقرری کے بعد، کانگریس کے نوجوان کارکنوں کی طرف سے سیاسی وراثت کے تسلسل پر کڑی نکتہ چینی بھی کی گئی۔

اور اب تک، بلاول بھٹو ۔ زرداری کی سیاسی کارکردگی میں، ایک عوامی تقریر یا اپنے والد کے ساتھ سفر کرنے کے علاوہ کچھ اور شامل نہیں۔

محترمہ کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا وزارتِ خارجہ میں شمولیت اختیار کرے مگر حالات کے جبر میں ان کے پاس انتخاب کے مواقع کم تھے اور والد انہیں سیاست کی طرف دھکیل رہے تھے۔

سیاسی میراث کے حامل سیاستدان اکثر اس لیے مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت اور اپنے خاندان کے بل بوتے پر اقتدار میں آتے ہیں۔

آخرِ کار، خاندانی سیاست میں، بعض خاص صورتوں میں خواتین کو بھی طاقتور سیاسی قائد بننے کا موقع مل جاتا تاہم ایسا عام طور پر نہیں ہوتا۔

عام طور پر دولت اور کرپشن سیاسی قائدین کے ساتھ چپک کر چلنے والی شہرت ہے اور جب تک سیاستدانوں کا احتساب نہیں ہوتا اور جب تک سیاستدان، ووٹرز سے کیے گئے وعدے پورا کرنے کا نظام قائم نہیں کرتے، تب تک سیاست کی خاندانی وراثت، جمہوریت کے لیے مشکل پیدا کرنے کا جواز بنتی جائے گی۔

تاریخی طور پر، ووٹرز کی کم ہمتی کے باعث ہی اکثر دائیں بازو نظریات پر استوار عناصر کو سیاست میں دَر آنے کے مواقع ملتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں متحرک جمہوریت سیاسی خاندانوں کے گھریلو معاملات کے مترادف بن چکی۔ ضرورت ہے کہ نہ صرف احتساب ہو بلکہ وہ اپنے وارثوں کو، اپنے اپنے ملکوں میں کی گئی سماجی و معاشی غلطیوں کو سمجھنے کی تعلیم بھی دیں۔


مضمون نگار 'ہیرالڈ' کی سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ razeshtas@gmail.com

ترجمہ: مختار آزاد

رزشتہ سیٹھنا
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔