نقطہ نظر

!سب سے پہلے پاکستان

دیکھئے معاملے کو زیادہ دور تک نہ لے جائیے ورنہ کئی پردہ نشینوں کے بھی نام آئیں گے

جنرل رٹائرڈ پرویز مشرف جو پاکستان کی آمریت کی تاریخ کے چوتھے امیر تھے اور بعد میں حضرت صدر پاکستان کے عہدے پر بھی براجمان رہے اور پھر بلاخر سیاسی قوتوں کے سمجھانے بجھانے پر کہ پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ گیا ہے آپ پاکستان کی 'خدمت' چھوڑئیے اور دیار غیر سدھار جائیے وغیرہ وغیرہ کی بدولت اپنے اس 'عزم' سے دستبردار ہوۓ.

آپ اپنے 'سب سے پہلے پاکستان' کے نعرے کے تحت ملک میں آگ لگا کر اس پر ہاتھ سینکتے رہے اور جس 'ٹیسٹ ٹیوب' سیاسی قیادت کو جنم دیا اسکی باقیات آج بھی بے بال و پر کبھی ایک سیاسی جماعت تو کبھی دوسری جماعت کے پروں میں آغوش مادر کی گرمی ڈھونڈ رہے ہیں.

پھر جب جنرل صاحب پردیس جا بیٹھے تو انکے سر میں جمہوریت کا سودا سما گیا فرق صرف یہ تھا کہ اس مرتبہ وہ مختار کل نہیں تھے اور انکے آگے پیچھے پھرنے والے خوشامدی بٹیرے اب دوسری سیاسی جماعتوں کی لہلہاتی فصلوں پر چونچیں مار رہے تھے ایسی صورت میں جب انہوں نے اپنی 'ذاتی' سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی تو گنتی کے چند لوگ انکے ساتھ تھے.

اگرچہ انکا دعوہ تھا اور ہے کہ انکے فیس بک پر لاکھوں پرستار ہیں. حیرت ہے کہ چار فوجی غاصبوں میں سے کوئی بھی یہ نہ سمجھ سکا کہ عوام میں جڑیں 'بنیادی جمہوریتوں' 'فوجی آپریشنز' 'آمریت پر اسلام کی ملمع کاری' اور 'فیس بک پر لاکھوں پرستاروں' سے گہری نہیں ہوتی اور نہ ہی انکی محتاج ہوتی ہیں.

دوسری طرف دنیا انگشت بدنداں ہے کہ کیسے کوئی شخص حقیقت سے اتنا دور ہو سکتا ہے، جنرل صاحب شائد سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان آج بھی ماضی والا پاکستان ہے، جاگئے جناب! آج پاکستان میں نہ صرف انکی کوئی جگہ نہیں بلکہ ملک میں واپس آ کر انہوں نے نگراں حکومت ، فوج اور عدالت کو عین انتخابات سے قبل ایک ایسے امتحان سے دوچار کر دیا ہے جس کا انجام خاصا بھیانک ہو سکتا ہے.

خیر قصہ مختصر انکی سیاسی جماعت کا حشر تقریباً ویسا ہی ہوا جیسا کہ نظر آ رہا تھا، آج انکے ترجمان اور حالی موالی ان سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں جنھیں جنرل صاحب اپنے تئیں پاکستانی ذہنوں سے مٹانے کا عزم رکھتے تھے. اس باقی ماندہ جماعت کی قیادت کرنے اور پاکستانی عوام کے دلدر دور کرنے وہ آج کل پاکستان میں ڈیرے ڈالے ہوے ہیں. شنید تو یہی ہے کہ اس ڈیرے کے 'خیمے' سعودی عرب کی فیاضی کی دین ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ جن جمہوریتوں کو روند کر یہ 'ملٹری مسیحا' اقتدار پر قابض ہوتے ہیں آج اسی جمہوریت کے پھریرے لہراتے عوامی دکھ درد کا رونا روتے نظر آتے ہیں: لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا!

جنرل صاحب جب سے پاکستان تشریف لائے ہیں عدالتوں میں چکر لگا رہے ہیں، غداری کا مقدمہ سپریم کورٹ میں اور ججز نظربندی کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں. دوسری طرف ہمارے ریٹرننگ افسران کی بدولت دو حلقوں سے کاغذات نامزدگی مسترد جبکہ ایک حلقے سے منظور ہونے کی وجہ سے آپ پہلی بار ایک فوجی آمر کو جو چور دروازوں سے اقتدار کے مزے لوٹ چکا ہو کو 'آپکا خادم' کی طرز کے بینرز پر ووٹ کا 'متقاضی' دیکھیں گے.

غداری کے مقدمے کی ابتدائی سماعت میں ہی انکے وکیل صاحب عدالت کو متنبہ کر چکے ہیں کہ دیکھئے معاملے کو زیادہ دور تک نہ لے جائیے ورنہ کئی پردہ نشینوں کے بھی نام آئیں گے دوسرے لفظوں میں 'مٹی پاؤ' کا نسخہ عمل میں لائیے، عدالت نے البتہ انکے اس انتباہ کو درخور اعتنا نہیں سمجھا.

بہتر ہوتا کہ وہ واپس ہی نہ آتے یا اگر آ بھی گئے ہیں تو کوئی بھی بہانہ بنا کر دوبارہ رفو چکر ہو جاتے ارے بھائی اپنے زرداری صاحب کا ہی نام لے لیتے ویسے بھی یہ آجکل کا طریقہ ہے کہ پاؤں رپٹنے سے لے کر امریکہ سے معاملات ہوں یا آٹے کے بھاؤ میں اضافہ ہر چیز کا 'کھرا' بیچارے صدر زرداری تک کسی نہ کسی طرح پہنچا ہی دیا جاتا ہے.

خیر جنرل صاحب کا سیاسی سفر تو گیارہ مئی کو ختم ہو ہی جائے گا لیکن ان کیسز کا بھوت انکا پیچھا نہیں چھوڑنے والا بہتر ہو گا کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لیں اور ملک کو مزید مشکلات میں مت ڈالیں ویسے بھی بقول انکے 'سب سے پہلے پاکستان'!


علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔