نقطہ نظر

اگنی پرکھشا

کون نہیں جانتا کہ یہاں کی ہوائیں نادار خلق کا خون بارشوں کے پانی سے بھی جلدی بہا لے جاتی ھیں۔

گھوٹکی کے پندرہ سالہ گیان چند کا پیٹرول کی آگ میں جھلسا ھوا بدن، روح پہ آئی ھوئی خراش کی طرح جب آپ کو بھی کسی طرح چین لینے نہیں دیتاھو تو کرموں جلی اسکی ماں رات کو کس طرح سکون کی نیند سوتی ھوگی جس نے اپنے اس کوئلہ ھوتے بچے کے جسم کو آخری بار چوما ھوگا۔

یہ مملکتِ خداداد؛ اقلیتوں کی زندگی پہ تو جاگتے جہنّم کی طرح بھاری ھے ھی مگر وہ خلقِ خدا جو حالتِ بے کسی میں سرداری کے عالی مقام رتبے پہ فائز فرعونوں کے درمیان رھنے پہ مجبور ھو، اس بے کس و ناچار خلق کی زندگیوں میں کوئی فصلِ بہار کیا آتی ھوگی۔

گھوٹکی؛ ایسے ہی سرداروں کی جاگیر؛ عرب شہزادوں و باوردی کمانڈوز کی لیئے کھلی شکار گاہ جس میں حیوانی و نسوانی شکار بہ آسانی دستیاب۔ ایسے باکمال شکاریوں اور حجازی نسل کے عرب شاھزادوں لے اترتے کاپٹروں کے آگے استقبال کے لیئے حالتِ رکوع میں سدا جھکے ھوئے سرداروں کے آگے اس بے کس خلق کا سر اٹھا کر چلنا تو دور کی بات ننگے سر چلنا بھی گویا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ھو۔

وھاں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے غریب آبادی کے اسکول ماسٹر بسنت کمار کی یہ مجال کیونکر ھوئی کہ اس نے اپنی رشتے کی بھابی کے ساتھ ھونے والی جنسی زیادتی پہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے ان سردار بہادروں کے خاندانی درزی کے بیٹے کے خلاف تھانے پہ شکایت میں گواہ بن گیا۔

سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیرِ اثر ان علاقوں میں رھنے والے غریب غربا کی کیا داد و فریاد، کیا تھانہ کچھری۔ ان علاقوں کا قانون، آئین، ریاست سب کچھ یہ سردار ہی تو ھوتے ھیں، ان کی خدائی میں انکی اجازت کے بغیر جب کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تو اس پرائمری اسکول ماسٹر بسنت کمار کی مجال تھی کہ وہ انصاف کے لئے کچھری کا کڑا کھٹ کھٹائے۔

یوں اسکی فریاد تھانے کچہری کے بجائے انہی سرداروں نے سنی۔ جنسی زیادتی کے الزام میں مبینہ طور ملوث ملزمان سنیل، راجا اور دیگر کا فیصلہ سابقہ مملکتی وزیر علی راجا مھر کی سربراھی میں ھوا اور اس میں جنسی زیادتی ثابت ھونے پہ ملزمان پہ پچاس ھزار جرمانہ طے پایا تھا۔

گیان چند سے ھونے والی اس بربریت کے پسِ پردہ ممکنہ طور پہ یہ ھی تنازعہ ھو یا کوئی اور واقعہ ھو مگرپیٹرول کی آگ میں جلتے بچے نے موت کی آخری ھچکیوں سے پہلے جو بیان میڈیا کی موجودگی میں دیا، اس کے مطابق رستے میں اسکی بائیک روک کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے والے ’سنیل اور راجا‘ ھیں جو کہ جنسی زیادتی کے اس کیس میں سرداروں کے فیصلے مطابق مجرم ثابت ھوئے تھے جس میں گیان چند کے والد بطور گواہ سامنے آئے تھے۔

بدقسمت گیان چند جس کا جسم اسی فیصد جل چکا تھا، اس کو خانپور مہر سے سکھر تک لایا تو گیا مگر سکھر کے ھسپتال میں بھی وہ جانبر نہ ھو سکا اور ھسپتال کا بستر اس کے لیئے بسترِ مرگ ثابت ھوا۔

ابھی گیان چند کی تدفین ھونا باقی تھی کہ مقامی پولیس کے چھوٹی سطح کے ایک پھول والے افسر نے بغیر کسی تفتیش اور ضروری محکمانہ کاروائی کے یہ موقف اپنا لیا کہ اسکو کسی اور نے پیٹرول چھڑک کر آگ نہیں لگائی بلکہ گیانچند نے خودکشی کی ھے۔

خانپور کے گیانچند کا والد جہانزیب کے والد جتنا با اثر نھیں تھا نہ ہی گیان چند کے نامزد قاتلان کا رتبہ بھی شاہ رخ جتوئی کے برابر تھا مگر سائیں تو سائیں، سائیں کا کتا بھی سائیں کے مصداق جو نام بسترِ مرگ پہ گیان چند نے دھرائے تھے، انکا تانا بانا کسی نہ کسی طرح ان مہر سرداروں سے جا ملتا تھا جو سندھ کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پہ بیٹھنے کا شرف بھی حاصل کر چکے تھے اور اب کے بھی بڑی شان سے پیپلزپارٹی کی کشتی میں سوار ہیں.

سائیوں کے ساتھ انکا تعلق لباس پوشی سے یوں بنا تھا کہ وہ مہر سرداروں کے خاص خاندانی درزی ھونے کے ناتے ان کی قربت کے حامل تھے اور مقامی سائیوں سے یہ قربت ان کی اپنی برادری کو یوں مہنگی پڑتی کہ آئے دن کسی کی بچی، کسی کی لڑکی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتیوں کا قصہ چلتا رہتا اور کوئی آواز اٹھانے کی جرات بھی نہ کرتا کہ مقامی مہر سائیوں کے روابط صرف عرب شہزادوں کے ساتھ ہی نہیں تھے مگر اپنی قومی سپاہ کے بڑے بڑے سالار بھی اکثر انکے مہمان بنتے دیکھے جاتے تھے۔

پتہ نہیں اس غریب اسکول ماسٹر کی ہمت کیسے بندھی کہ اس سے اپنی رشتے کی بھابھی کے ساتھ ھونے والی زیادتی پہ زیادہ دیر تک چپ بیٹھا نہ گیا۔ اس گواھی کے بعد اس کے لیئے 'سبق سکھا دینے' کی دھمکیوں کا سلسلا چل پڑا مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس سبق میں اسے میٹرک میں پڑھنے والے بچے کا کوئلہ ہوتا جسم بھی شاملِ ٹیکسٹ ھوگا۔

جلتے ھوئے بچے کی خبر کسی بڑے میڈیا گروپ نے بریکنگ نیوز کی شکل میں پیش نہیں کی البتہ مہر اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کی غیر یقینی صورتحال پہ ھمارے جید تجزیہ نگار کے برجستہ تبصرے اور ان پہ اینکر پرسنز کی سنسی خیز رپورٹنگ ضرور جاری رھی۔

کون نہیں جانتا کہ یہاں کی ہوائیں نادار خلق کا خون تو بارشوں کے پانی سے بھی بہت جلدی اور زیادہ تیزی سے بہا کر لے جاتی ھیں۔ بسنت کمار عرف بصرو ابھی بچے کی تدفین میں ہی مشغول ھوگا کہ دوسری جانب سے حسبِ معمول تھانے و پولیس افسران کی خرید و فروخت کا سلسلہ چل نکلا تھا، لیکن ایک بھی افسر گر ضمیر کے بوجھ کو منڈی کا مال بنا کر قیمت لگانے سے گریز کرے تو پھر یہ خون آپے ہی بولنے لگتا ھےَ، گیان چند کے خون کے ساتھ بھی یہی کچھ ھوا۔

ضلعِ انتظامیہ کے اعلیٰ افسر نے اس خونِ ناحق پہ آنکھیں موند لینے کے بجائے ان نامزد جوابداروں کی گرفتاری کے ساتھ تحقیقات شروع کردیں۔ صدرِ پاکستان اور گورنر سندہ سے لیکر میاں نوازشریف تک نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ مگر خونِ ناحق کی کہانی میں انصاف کی گنجائش بہت ہی کم ھوتی ھے اس لئے مقامی میڈیا میں معاملہ دبانے کے ساتھ جو اعلیٰ سطحی کاروائی ہوئی اس میں سکھر کے ایس ایس پی کو انکوائری کا ہیڈ بنا کر ایک من پسند عبوری رپورٹ جاری کر دی گئی جس میں گیان چند کے خون کو خودکشی قرار دیا گیا ھے۔

مقامی ایس ایچھ او نے مزید رنگ یہ بھرا کہ’گیان چند نے جوۓ میں تیس سے پچاس ہزار ہارے تھے اس لئے باپ سے پٹائی کے خوف سے خود کو آگ لگا دی۔‘ اسکول ماسٹر کے بیٹے اور میٹرک کے شاگرد کے پاس آخر ایک دن میں تیس سے پچاس ھزار کی رقم کہاں سے آئی۔

میں کیونکر اس انکوائری رپورٹ پہ اعتبار کرلوں جس کے مطابق گیان چند اسی فیصد جلے ھوئے جسم کے ساتھ بسترِ مرگ پہ موت کی آخری ھچکیوں میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہ آیا۔ اب سنا ھے کہ اس پولیس افسر عرفان بلوچ کا بھی تبادلہ ھو چکا جس کے پاس سکھر کی رپورٹ کے برعکس جھوٹے سچے ان چشم دید گواھوں سے زیادہ گیان چند کا وہ بیان زیادہ اھم ھے جو اس نے مرتے وقت دیا تھا کہ کس طرح اس کو زبردستی پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی تھی۔

مقتول بچے کے ماں باپ کے دل کا پتہ نہیں کہ وہ اب کب ٹھنڈے ھونگے مگر معاملہ میڈیا اور پولیس کی اصطلاح میں 'ٹھنڈا' ھو چکا ھے۔ ملزمان تھانے سے بری ھو کر ان بڑی حویلیوں کی پناہ میں جا چکے ہیں جن کے دروازے کسی بھی سالار و حجاز مقدس کے مہمانوں کے لیئے کھلے رھتے ھیں۔

گیان چند کے خون کی کھانی کھیل ختم پیسا ھضم کے مصداق اب پوری ھو چلی۔ بسنت کمار اب کوئی وکیل ڈھونڈ کر اس انکوائری رپورٹ کو چیلنج کرنے کے بجائے ان سرداروں کے فیصلے قبول کرنے کا پابند بنا دیا جائے گا جن کا دستِ شفقت کسی بھی قانون سے ماورا ھے۔

اس رام کھانی کے ساتھ اے سردارانِ منصفان! انصاف کی علامت، اے چیف صاحب! بس اتنی گذارش ھے کہ خونِ ناحق کو سماجی رتبے کے حوالے سے نوٹس لینے کی روایت ترک ہو کہ عقل کہتی ھے کہ بیشک بینک بیلنس کم زیادہ ھوسکتا ہے مگر آپ کیسے کہہ سکتے ھیں کہ گیان چند کے والد کو اپنا بچہ اس سے کم پیارا ھوگا جتنا شاہزیب اپنے والد کا پیارا تھا، اس لیئے گیان چند کا قتل ناحق بھی آپ سے ذاتی دلچسپی کا اتنا ہی طلبگار ھے۔ گیانچند کے کیس میں آپکا نوٹس لینا بےشک نہ کوئی بریکنگ نیوز بنا سکتا ھے اور نہ ھی کسی اینکر پرسن کے لیئے مصالحہ مہیا کر سکتا ہے بس عدم تحفظ کی شکار اپنے سانس میں سکڑتی اقلیتوں، بے کس و نادار لوگوں کی اکثریت البتہ آپکو دعائوں میں یاد کر سکتی ھے کہ آپ کا اقبال بلند ھو کہ انصاف نے بھی کبھی انکے گھر کے دروازے پہ دستک دی تھی۔


امر سندھو

امرسندھو ایک لکھاری، سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں۔ ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔