ووٹرز وائس کے دوسرے حصے کا موضوع خواتین ووٹرز کی آئندہ الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سے وابستہ توقعات ہیں۔
پاکستان میں اس وقت کُل 37٫560٫654 خواتین رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سےاکثر کو درپیش مسائل کا تعلق معاشرے میں خواتین سے روا رکھے جانے والے سلوک سے ہے۔
مندرجہ ذیل وڈیوز میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ خواتین آئندہ آنے والی حکومت سے کیا امیدیں رکھتی ہیں، مزید یہ کہ وہ کسے اپنی نمائندگی کا حقدار خیال کرتی ہیں۔
خواتین کی حاکمیت کا خاتمہ
مشہور ہے کہ کراچی شہر کا نام ایک خاتون ماہی گیر 'مائی کولاچی' پر رکھا گیا تھا۔
ماضی میں خواتین مچھیرا بستیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان بستیوں کی خواتین کے کردار بھی کافی بدل گئے ہیں۔
دوسری برادریوں کے برعکس آج یہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے بجائے گھریلو امور تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
.اس وڈیو میں ابراہیم حیدری سے تعلق رکھنے والی عزیزہ اور طاہرہ ان دنوں کو یاد کرتی ہیں جب وہ اپنے بھائیوں اور والد کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے جایا کرتی تھیں اور بتاتی ہیں کہ کیسے آج ان کی زندگیاں تبدیل ہو چکی ہیں۔
اس برادری میں سماجی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ معاشی اور ماحولیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں ان کی نقل مکانی ہے۔
عزیزہ اور طاہرہ گاؤں کے دوسرے افراد کی طرح روایتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی ووٹر رہی ہیں لیکن اس بار ان کے ارادے کچھ مختلف نظر آتے ہیں۔
ابھرتے ہوئے سیاستدان
علیزہ حیدر حال میں ہی دبئی سے اعلی ملازمت چھوڑ کر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس لوٹی ہیں۔
علیزہ کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جنہیں پی پی پی نے قومی اسمبلی میں عورتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے چنا ہے۔
مرحوم سابق قانون ساز اقبال حیدر کی بیٹی ہونے کے ناطے علیزہ نہ صرف اپنے والد کے انسانی حقوق کے مشن کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں بلکہ ان کے اور بہت سے منصوبے بھی ہیں۔
رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد علیزہ کیا کرنا چاہیں گی، دیکھیے اس وڈیو میں۔
کنبے کا پیٹ پالنے والی
نور فاطمہ میٹرک کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکیں، ان کی بیٹیوں کی قمست بھی ان سے زیادہ مختلف نہ نکلی جس کا انہیں افسوس بھی ہے۔
شادی کے پندرہ سال بعد شوہر کا کاروبار ختم ہونے پرفاطمہ کو مجبوراً خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑا۔
خواتین کے کام کرنے کے مخالفین کے سامنے ارادہ باندھ کر فاطمہ باورچی بن گئیں۔ ان دنوں وہ مخلتف گھروں میں روزانہ چودہ گھنٹے سے زائد کام کرتی ہیں۔
نوکری ملنے کے لیے قومی شناختی کارڈ بنوانا بھی ضروری تھا جس کے نتیجے میں فاطمہ پہلی مرتبہ ووٹ دینے کی اہل بھی ہو گئی ہیں۔
فاطمہ نے سوچ لیا ہے کہ وہ اس بار ضرور ووٹ ڈالیں گی، اس وڈیو کے ذریعے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کسے اور کیوں ووٹ دیں گی۔