ہر طرف الیکشنز کا چرچا ہے، سیاسی جماعتیں بڑے بڑے اجتماعات کر رہی ہیں اور طرح طرح کے خوشنما وعدے وعید فرما رہی ہیں- میڈیا پل پل کی خبریں قوم کو سنا رہا ہے اور اس گہما گہمی میں وقتی طور پر بم دھماکوں، قتل و غارت اور جرائم کی خبریں دب جاتی ہیں۔
یہ سب کچھ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود اچھا دِکھ رہا ہےکہ جمہوری عمل ہے اور ہماری امید صرف جمہوریت پر ہی ہے۔ اس ساری چہل پہل میں عوام کی تربیت اور بیداری بھی ساتھ ہوتی رہے گی۔ دوسرے لفظوں میں سوشل موبیلائزیشن ہورہی ہے مگر کیا اس سارے عمل سے پاکستانی عوام کی ذندگیوں پر کوئی مثبت اثرات مرتب ہونگے یا نہیں یہ ایک بہت ہی مشکل سوال ہے۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے اس کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ پاکستان بننے سے اب تک ہر حکومت اور سیاسی جماعت عوام سے مختلف وعدے کرتی رہی ہے لیکن ہر بار بد قسمتی سے عوام پچھلے دور کو ترس گئے ہیں۔
حالیہ گزر جانے والا دور بھی اپنے ساتھ کئی امیدیں لیکر آیا تھا اور قوم سمجھتی تھی کہ ایک جابرانہ اور آمرانہ دور کی نسبت یہ جمہوری دور ان کی ذندگیوں کو کسی حد تک مثبت طور پر بدل دے گا لیکن ایسے کوئی اثرات بد قسمتی سے نظر نہیں آئے۔ البتہ گذشتہ دور کی چند ایک خوبیاں ایسی ہیں کہ جن کے مضمرات دوررس ثابت ہونگے۔
مَثَلاً، اٹھویں ترمیم کی صورت میں اختیارات کی صوبوں کو منتقلی، خالص پارلیمانی جمہوریت کی طرف اقدامات ایسے فیصلے ہیں کہ جن کا اثر دیرپا ہوگا۔ ان ہی اقدامات میں ایک متّفقہ نگران سیٹ اپ اور آزاد الیکشن کمیشن کا قیام بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر انتخابات کی طرف قوم کا جمہوری سفر گذشتہ حکومت کے کارناموں میں نمایاں ہے۔
مگر ہمارا سوال وہیں کا وہیں رہتا ہے کہ آیا عوام اپنی ذندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھے گی؟ ایسی کسی تبدیلی کے لئے ہمیں 2023 ء تک انتظار کرنا پڑے گا اور وہ بھی اسی صورت میں جب ایسے دو الیکشنز اور ہوں۔ شائد تب جا کر ہم اپنے لئے درست راہنما چننے میں زیرک بن جائیں گے۔ اس وقت تک اسی مسلسل جمہوری عمل کی بھٹی سے نکل کر شائد ہمارے چند ایک راہنما کندن بن جائیں۔
ان الیکشنز اور خوشنما نعروں کا کوئی اثر دیکھائی نہیں دیتا۔ نہ تو ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہونے والا ہے اور نہ ہی ہماری معشیت و طرزِحکمرانی سدھرنے والی کیونکہ موجودہ راہنماوَں میں سے کوئی بھی پاکستان کی اصل اقتدارِاعلی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ملک میں سینکڑوں سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتیں بر سرِ پیکار ہیں اور اس تقسیم در تقسیم کا فائدہ ملک کے اصل حکمرانوں کو پہنچتا ہے۔ ان جماعتوں میں کئی توان مقتدر حلقوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
پاکستان میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا کلّی خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان طاقتور حلقوں کی پالیسیز تبدیل نہیں کرائی جاتیں یا ان سے ان اختیارات کو واگزار نہیں کرایا جاتا۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ ملک دو پارٹی سسٹم کی طرف تیزی سے بڑھے اور سیاسی ، لسانی اور مذہبی پارٹیوں کی صورت میں ان پریشر گروپس کا خاتمہ ہو۔ ان ہی گروپس، فاٹا کے ارکان اور آذاد نمائندوں کی وجہ سے ہی ہماری پارلیمنٹ ہنگ Hung رہتی ہیں۔
اصل جمہوریت کی طرف سفر کے لئے ہمیں اہل اور ویژنری visionary، روشن خیال اور شرکتی راہنماوَ ں کی ضرورت ہے۔ اس کسوٹی کے اعتبار سے شائد ملک کے سیاسی منظر نامے پر نمودار سارے ستارے ہمیں مایوس ہی کریں۔
انسانی ریّوں اور اوصاف کے ماہرین کسی بھی سطح کے اہل راہنما کے لئے انسان دوستیhumanism، اعلی فکری vision، شرکتی طرزِ عمل participatory approach اور موثر سخنی effective interpersonal skill کو اساسی عوامل گردانتے ہیں۔ اقبال نے بھی کہا تھا؛
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لئے۔
میرِ کارواں،کارواں یعنی عوام کو سمت دیکھاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کو ویژن یعنی اعلی فکر اور منزل کا پتہ دیتا ہے۔ منزل وہ جو قابلِ رسائی اور واضح ہو۔ ہمارے میرکارواں ہجوم کے پیچھےہیں اور ہجوم ہی ان رہنماوَں کی رائے سازی کرتا ہے۔
مثال کے طور پر ہمارے سب راہنما سمجھتے ہیں کہ عوام اسلامی نظام چاہتے ہیں اس لئے ہر ایک اپنے منشور اور تقاریر میں ایسے نعروں کا استعمال کرتے ہیں مگر کسی نے اب تک یہ گوارہ نہ کیا کہ اس بات کی واضح تشریح کرے کہ اسلامی نظام یا پھر اسلامی فلاحی ریاست ہے کس بلا کا نام؟
ان کے نزدیک جو یہ سمجھتے ہیں وہی اسلامی نظام ہے۔ شائد یہی وجہ ہے ہمارے پاس درجنوں مذہبی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں۔ انسان دوستی یا humanism کی بنیادی شرط رنگ، نسل، عقیدے، مذہب اور زبانی تعصب سے بالاتر ہونا ہے۔ ہمارے کتنے راہنما ایسے ہیں جو یہ جراَت کر سکتے ہیں؟ اکثریت کے وجود کی اصل علّت تو خود یہی تعصب ہے۔ صرف یہ ہی کیا ہمارا دستور بھی اسی تعصب سے متاثر ہے۔
اعلی سخنی کا یہ عالم ہے کہ سارے فعل مستقبل میں بولتے ہیں۔ کسی نے آج تک ایسا کوئی جملہ نہ کہا جو تاریخ کی کتابوں میں قول کی حثیت رکھتے ہوں۔ بعض کے پاس تو شائد مثبت الفاظ کی ہی کمی ہے کہ جو اپنی جیت قدرتی آفات جیسے زلزلے، سیلاب اور سونامیوں سے منسوب کرتے ہیں۔
ہمارے رہنما صرف انتخابات کے دنوں ہی شرکتی ہوتے ہیں۔ ہر ایک سے گلے ملتے ہیں مگر جب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جائیں تو ان کے درجنوں پہرےدار عوام کے بیچ حائل ہوجاتے ہیں۔ عام دنوں میں کسی علاقائی پروگرام میں بلائیں تو غائب رہتے ہیں البتہ ان کے نزدیک شرکتی ہونا صرف تعزیتوں میں جانا ٹہر گیا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد اپنے کسی بھی پروگرام کو عوام کے سامنے نہیں رکھتے اور پسیے بٹورنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
رہ گئی جاں پُرسوزی تو اس کا عالم یہ ہے کہ ان راہنماوَں میں سے اکثریت کو عوام اور ملک کے حقیقی مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔ مثلًا دہشت گردی گذشتہ ایک دہائی سے اس ملک کا مسئلہ نمبر ایک بنا ہوا ہے لیکن ہمارے سارے راہنما اس سے آنکھیں چراتے ہیں اور بہت سارے تو اس آفت کو کسی خاص علاقے یا لوگوں سے منسلک کرتے ہیں۔ اس کو ہمہ جہتی طور پر دیکھنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی کجا اس کا حل۔ کئی سیاسی و مذہبی پارٹیاں تو دہشت گردوں کو انتخابات میں اپنے حیلف سمجھتے ہیں۔
ملکی سطح سے حلقے کی سطح پر آتے ہوئے ہم جیسے ووٹرز کے لئے الجھن مزید بڑھ جاتی ہے۔ ڈیڑھ درجن امیدواروں میں کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو کسی مقصد کے لئے میدان میں اترا ہو۔ ہر ایک نے سیاست کو ایک آسان تجارت گردانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ماہ میں کئی پارٹیاں بدلی جاتی ہیں۔ ایسے میں ہمیں 11 مئی کا انتظار تو رہتا ہے لیکن بے چینی اور تذبذب بھی ساتھ بڑھتا جاتا ہے کہ جمہوریت پر ایمان کی حد تک یقین اور حقِ رائے دہی کی اہمیت اکساتی ہے مگر سامنے ایسے ستارے کہ کسے راہنما کرے کوئی؟