منصفینِ کرام
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/87235449" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
منصفینِ کرام کی یہ فوج جنہیں انتخابات کرانے کا اختیار ملنے کے بعد منصفِ اعلیٰ نے اپنے پیغام میں ضلع سطح کے منصفین کو اپنا چہرہ قرار دیا تھا۔ نا صرف اپنا چہرہ دکھایا ہے بلکہ یہ بھی عیاں کر ڈالا ہے کہ وہ مملکتِ خدادادِ پاکستان کوجیسا انصاف مہیا کر رہے تھے، ویسا ہی فیئر اور فری الیکشن بھی کرواکے ہی دم لینگے۔
ہمارے فخرو بھائی کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ چیف صاحب اور اس کے ضلعی منصفین کی یہ فوج ظفر موج کتنی’آگے‘جاچکی ہے۔ اور یہ چہرہ جو پچھلے ہفتے میں ان کے ساتھ ساتھ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھا ہے۔ اسے اتنی آسانی سے نظر انداز کرنا تو بہت مشکل ہی لگ رہا ہے۔
ہم ویسے تو آئینہ دیکھنے سے کتراتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ اسے نظر انداز کردیں اور بغیر دیکھے ہی نکل لیں۔ لیکن یہ چہرہ اب آپ کا اور بھی جگہ منتظر ہے، کہاں کہاں آنکھیں چرائینگے؟ اب کی بار تو صرف آپ نے ضلعی سطح کے منصفین دیکھے ہیں جو بقول منصفِ اعلیٰ کے، عدلیہ کا اصلی چہرہ ہیں۔
باقی صحت، تعلیم، سیاست، فوج، سول سروس، سماجی کام، کاروبار، میڈیا اور شو بزنس کدھر کو جا رہا ہے اسے تو ہم ابھی بھی دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ جو سوالات ان رٹرننگ افسروں نے اٹھائے ہیں، انہیں مذاق میں ٹالنے کی بجائے بہت سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ یہ سب کچھ کوئی اچانک نہیں ہورہا۔ بہت پہلے سے اور بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔
ہم سب صرف ناک کی سیدھ میں دیکھ رہے ہیں۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے دیکھنا شاید چھوڑدیا ہے۔ اور آئینہ، اسے دیکھنے سے تو ہماری جان نکلتی ہے۔ کب تک اس سےنظریں چرائینگے؟ کب تک اپنے دل کو جھوٹی تسلیاں دینگے؟ آپ کو اپنا بھی پتہ نہیں، ذرا آئینے کی طرف نگاہ تو کریں۔
دیکھیں تو چہرہ کیسا بدل گیا ہے۔ یہ جو تصویر چھپی ہے اسے غور سے دیکھیں یہ اپنےرٹرننگ افسر ہیں ساتھ میں جو مخاطب ہیں اور جن سے مخاطب ہیں سب ایک ہی ہیں اور یہ کٹہرے میں کھڑا کیمرہ، یہ تو لائیو جا رہا ہے حضور۔
اور جو یہ آج سوال پوچھ رہے ہیں، تیس سال پہلے ان ہی سوالوں کے جواب دے کر افسر بنے تھے، کہ اس وقت قابلیت کی بنیاد یہی ہوتی تھی۔ انٹرویو لینے والا آپ کے شعبے کے متعلق سوال نہیں کرتا تھا۔ آپ کی ذہانت اور علم نہیں آپ کی جاہلیت ہی آپ کو نوکری دلواسکتی تھی۔
اور اب تو یہ سب پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ آپ کا چہرہ، آپ کی وضع قطع اور آپ کے ماتھے پر چمکتا تمغہ ہی آپ کی قابلیت ٹھہرتی ہے۔
پچھلے ایک ہفتے کی اُتھل پُتھل اور کیے گئے سوالوں نے اور بہت سارے سوال بھی کھڑے کردیے ہیں۔ جن کے جواب بھی ان ہی سوالوں کے پیچھے چھپے ہیں۔ جن کے لیے یا تو نقطے ملانے کی مشق کرنی پڑے گی یا پھر اسی آئینے سے رجوع کرنا پڑے گا کہ جس کی طرف ہم نے دیکھنا چھوڑدیا ہے۔ برٹش کونسل کا نوجوانوں سے کیا ہوا سروے ہو یا منصفینِ کرام کےسوالات، سب ہوا کا رخ بتانے کے لیے کافی ہیں۔اب یہ ہوا کا رخ منصفینِ کرام بدلینگے کہ میڈیا، جلد ہی معلوم ہوجائے گا۔
ویسے اپنا میڈیا فروغِ جہالت میں سب سے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ نجانے ریٹنگ کے چکر میں یا پھر فروغِ جہالت کی بھی فنڈنگ ہو رہی ہے۔ ملک اور قوم کو پیچھے دھکیلنے میں پہلے ہی بہت زورآزمائی ہو رہی تھی ۔ لیکن میڈیا ہے کہ سب سے آگے رہنا چاہتا ہے۔ جو خبر نہیں اسے بڑی خبر اور بریکنگ نیوز کرکے پیش کیا جا رہا ہے اور جو خبر ہے اسے دبانے اور چھپانے میں لگے ہیں۔ کیمرہ اب کٹہرے میں کھڑا رپورٹ کر رہا ہے۔ منصفِ اعلیٰ جن کا میڈیا کے بغیر ایک پل بھی نہیں گذرتا تھا ۔ اب ان کے نائبین اور ضلعی سطح کے منصفین بھی بریکنگ نیوز بن گئے ہیں۔ اسے کہتے ہیں بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ!
بس اللہ کی شان ہے! شوقِ انتخاب نے بڑے بڑوں کو رسوا کیا ہے، اب کی بار! کیا طنطنہ تھا ، دبدبہ تھا جو شوقِ انتخاب میں ملیا میٹ ہوگیا۔ یہ عوام کی نمائندگی کے شوق کو اتنا مہنگا کردیا گیاہے کہ اچھا خاصہ سمجھدار بھی آئندہ ایسا شوق پالنے سے پرہیز کرے گا۔ پہلےکچھ زیادہ عزت کمانی ہوتی تو افسر بننے کا سوچتے، پھرفوج کی باری آئی، اب تو جس کو دیکھو یا تو جج بننا چاہتا ہے یا پھر اینکرپرسن۔ ویسے بھی اینکر بھی آسان اردو میں جج ہی ہوتا ہے۔ وہ بھی روزانہ عدالت لگاتا ہے اور فیصلے دیتا ہے اور اگرچاہے تو بڑی عدالت کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے۔