پاکستان

سندھ کی سیاست پر مسلّط خاندان

جس طرح سے ایوب خان کے صنعتی انقلاب کے دوران بائیس خاندان تشکیل ...

جس طرح سے ایوب خان کے صنعتی انقلاب کے دوران بائیس خاندان تشکیل پا گئے تھے، اسی طرح سندھ میں ڈیڑھ درجن خاندان سیاست پر مسلط ہیں۔ یہ خاندان صرف معاشی یا سماجی طور پر ہی وڈیرے نہیں بلکہ سیاسی وڈیرے بھی ہیں۔ ان خاندانوں کی سیاست پر اجارہ داری گزشتہ دو تین پشتوں سے چلی آرہی ہے اور اب ان کی اجارہ داری مسلّمہ ہے کہ ان کی موجودگی میں عام یا درمیانہ طبقے کا کوئی آدمی انتخابات جیت نہیں سکتا۔

اس صورتحال میں انتخابی سیاست میں عام آدمی کے لیے موجود نہیں ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی ہر الیکشن میں کارکن طبقے یادرمیانہ طبقے کے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیتی تھی۔ مگر اب یہ دروازہ بند ہے۔ سیاست جاگیر بن گئی ہے جو ایک شخص سے دوسرے کو منتقل کردی جاتی ہے۔

بعض اضلاع میں ایک یا دو خاندانوں کا تسلّط قائم ہے۔ اکثر خاندان کے افراد ایک ہی پارٹی سے امیدوار ہیں۔ بلکہ بعض خاندانوں نے تو اپنی سیاسی جماعتیں بنا رکھی ہیں۔ نوشہروفیروز کے جتوئی اور تھر کے ارباب خاندان نے اپنی پارٹیاں بنائی ہوئی ہیں۔

صدرآصف علی زرداری کی دو بہنیں فریال تالپورلاڑکانہ سے اورعذرا پیچوہو نوابشاہ سے انتخاب لڑرہی ہیں۔ فریال تالپور خواتین کی مخصوص نشست سے بھی امیدوار ہیں۔ یہ دونوں خواتین گزشتہ اسمبلی کی بھی رکن تھیں۔ فریال تالپور کے شوہر میر منورعلی تالپور میرپورخاص سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے کے امیدوار ہیں۔ میر منور تالپوربھی رکن اسمبلی رہے ہیں۔

مخدوم خاندان مٹیاری پرچھایا ہوا ہے، جہاں مخدوم امین فہیم، ان کے دو بھائی مخدوم جمیل الزمان اور مخدوم رفیق الزمان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اُمیدوار ہیں۔ جبکہ مخدوم امین فہیم کے بیٹے مخدوم نعمت تھرپارکر سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ مخدوم امین فہیم دو مرتبہ وزیراعظم ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اب کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات ہوں یا غیر جماعتی شیرازی خاندان ٹھٹّہ میں تُرپ کارڈ بنا ہوا ہے، جس نے حال ہی میں قاف لیگ سے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے اور اُسی کے ٹکٹ میں کل سات میں سے چار پر اس گروپ کے امیدوار ہیں۔ شیرازی خاندان سے ایاز علی شاہ شیرازی، اعجاز علی شاہ شیرازی، ان کے بیٹے شاہ حسین شاہ شیرازی، انتخابات لڑ رہے ہیں۔

نوشہروفیروز میں این پی پی کے سربراہ غلام مرتضیٰ جتوئی، ان کے بھائی مسرور جتوئی، اور عارف جتوئی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔

خیرپور میں فنکشنل لیگ کے رہنما پیر صدرالدین شاہ، اور ان کے بھتیجے پیر راشد شاہ، پیر محمد اسماعیل شاہ، پیر عمر مصطفےٰ شاہ، فنکشنل لیگ کے امیدوار ہیں۔ رانی پور کے پیروں میں سے پیر فضل شاہ اور پیر نیاز حسین شاہ اُمیدوار ہیں۔ خیرپور کی تحصیل ٹھرّی میرواہ سے آج تک مقامی آبادی کو اپنا امیدوار نصیب نہیں ہوا، کیونکہ امپورٹیڈ بااثر خاندان حاوی رہے ہیں۔

اس ضلع سے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ان کی بیٹی نفیسہ شاہ خواتین کی مخصوص نشست سے پیپلز پارٹی کی اُمیدوار ہیں۔ قائم علی شاہ کے بیٹے اسد شاہ بھی رکن اسمبلی رہے ہیں۔ خیرپور سے ہی وسان فیملی سے منظور وسان اور نواب وسان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں ۔

دادو میں لیاقت جتوئی، ان کے بھائی صداقت جتوئی اور بیٹے کریم جتوئی امیدوار ہیں۔ لیاقت جتوئی مشرف دور میں قاف لیگ کے ساتھ تھے اور وفاقی وزیر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال نون لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

یوسف تالپور اور ان کے بیٹے تیمور تالپور عمرکوٹ سے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے امیدوار ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے یونس تالپور فنکشنل لیگ کی ٹکٹ پر انتخاب لڑرہے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر علی مردان شاہ اور ان کے بھانجے سردار شاہ عمرکوٹ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔

گھوٹکی سے سابق وزیراعلیٰ سندھ سردار علی محمد مہر، ان کے بھائی علی نواز عرف راجا مہر امیدوار ہیں۔

جام سیف اللہ دھاریجو اور ان کے بھائی جام اکرام اللہ دھاریجو نے گھوٹکی سے ہی کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔ اسی ضلع سے لُنڈ برادران بھی میدان میں ہیں۔ دھاریجو برادران کے کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال کے دوران رَد ہوئے ہیں اور وہ اپیل کرنے جا رہے ہیں۔

تھرپارکر میں ارباب خاندان سے ارباب غلام رحیم، ارباب انور، ارباب توگاچی، ارباب نعمت اللہ امیدوار ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی پارٹی بنائی ہے۔ تھرپارکر میں بااثر امپورٹیڈ امیدوار ہی جیتتے رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا اور ان کے بیٹے حسنین مرزا، بدین سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔ مرزا فیملی کے مقابلے میں سید علی بخش شاہ عرف پپو شاہ اور ان کی بیگم یاسمین شاہ امیدوار ہیں۔

سکھر سے سابق وفاقی وزیر خورشید شاہ اور ان کے بھتیجے سید اویس شاہ امیدوار ہیں۔ خورشید شاہ اپنے خاندان کی سیاست میں بانی کار ہیں۔

لاڑکانہ قمبر کے بگھیو خاندان سے حزب اللہ بگھیو اور ان کے بھائی نذیر احمد بگھیو، چانڈیو برادران میں سے نواب سردار خان چانڈیو، اور انکے بھائی برہان خان چانڈیو پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔

شہداد کوٹ سے سابق وزیر خوارک میر نادر علی مگسی اوراور ان کے بھائی میر عامر علی مگسی میدان میں ہیں۔ گورنربلوچستان ذوالفقار مگسی اس فیملی سے ہیں۔

ٹنڈوالہٰیار سے مگسی خاندان ہے۔ سابق ضلع ناظمہ راحیلہ مگسی ، ان کے بھائی عرفان گل مگسی نواز لیگ کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جبکہ صوبائی کی نشست پر ادیبہ مگسی کے بجائے اس مرتبہ اس نشست پرراحیلہ کے بیٹے محسن کو کھڑا کیا گیا ہے۔

جیکب آباد میں بابل خان جکھرانی اور اعجاز جکھرانی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ سابق وفاقی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور ان کے بیٹے شبیر خان بجارانی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ میر حسن کھوسو اور شفیق کھوسو ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے۔ دو بھائی سہراب خان سرکی اور ذوالفقار سرکی بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔

سانگھڑ میں جونیجو خاندان سے روشن علی جونیجو، اور محمد خان جونیجو امیدوار ہیں۔ جبکہ شازیہ مری کے مقابلے میں ان کے بھائی نے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔

شکارپور میں امتیاز شیخ اور ان کے بھائی مقبول شیخ اور غوث بخش مہر اور ان کے بیٹے شہریار مہر امیدوار ہیں۔ جبکہ ابراہیم جتوئی اور عابد جتوئی این پی پی کے امیدوار ہیں۔

جامشورو میں ملک اسد خاندان اور ٹنڈومحمد خان میں سید اور سرہندی خاندان سیاست پر حاوی رہے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں ان خاندانوں کی جانب سے ایک ایک امیدوار میدان میں ہے۔

ہمارا انتخابی نظام کلوزڈ کلب کی مانند ہے، جس میں کوئی نیا بندہ داخل نہیں ہوسکتا۔ پارلیمانی سیاست میں داخلہ فیملی کے ذریعے ہی ممکن ہے، اس کے علاوہ ایک دوسری بھی لسٹ ہے، جس کے مطابق پرانے امیدوار میدان میں یا پھر ان کے بھائی اور بیٹوں کو باری دی گئی ہے۔

ہر ایک کو ووٹ کا تو حق ہے، پر کیا ہر ایک انتخاب لڑسکتا ہے؟ پاکستان کا سیاسی نظام اب ایسا ہوچکا ہے کہ آپ ووٹ دیتے رہیں کبھی آپ کو بھی کوئی ووٹ دے اس کی باری نہیں آئے گی۔ پارٹیاں اور سیاست ایک فیملی بزنس بن گیا ہے۔