نقطہ نظر

آج پھر چار اپریل ہے

مسائل ، نعرے، جلوس اور احتجاج جمہوریت کا حسن ہیں، سو وہ اسی طرح جاری رہینگے۔


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/86207591" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


آج پھر چار اپریل ہے، وہی چار اپریل جسے اپنی لولی لنگڑی جمہوریت جو بعد میں اندھی اور بہری بھی ثابت ہوئی، کے آتے ہی چھٹی کا دن قرار دیا گیا تھا اور جو پچھلے پانچ سال سے ہم نے چھٹی کے طور پر ہی منایا۔

ویسے تو یہ پہلی چھٹی تھی جو جمہوری سرکار نے شروع کی۔ لیکن اس کے بعد تو جمہوری سرکار نے چھٹیوں کی لائین ہی لگادی۔ اپنے دو دو شہیدوں کی برسیاں اور سالگرہیں تو منائیں ہی لیکن مفاہمت کی پالیسی پر عمل کرتے کرتے سندھ کے سورہیہ بادشاہ کی چھٹی بھی منائی گئی۔

اب چونکہ اندھے اور بہرے جو لولی لنگڑی جمہوریت کے ہوتے بھی نا صرف پانچ سال نکال گئے (بلکہ جاتے جاتے اور بھی بہت کچھ نکال لےگئے) نہیں رہے اس لیے اپنے چھٹی خوروں کے لیےآج مایوسی کا دن ہے۔

پہلے تو شہر بھر کے بل بورڈ ہفتہ بھر کے لیے اندھے اور بہرے عوامی نمائندگی کے دعویداروں کی تصاویر سے سج جاتے تھے جن کی شکلیں آہستہ آہستہ بھٹو اور بےنظیر کی تصاویر سے بھی بڑی ہوتی گئیں اور اب اگر کہیں آپ کو ایسا بل بورڈ دکھائی بھی دے تو ایک تبدیلی واضح دکھائی دے گی کہ انہوں نے بہت ہوشیاری سے بھٹو اور بے نظیر کو غائب کردیا ہے۔

اب نا بھٹو رہے نا ہی بھٹو کا نام لینے والے۔ اگر رہے ہیں تو صرف وہ جن کی پہنچ سابق نوابشاہ کی سابق ناظمہ تک ہے کہ وہ اپنے بہن ہونے کے ناطے سارے معاملات کی خود ہی مختار ہے۔

جب وہ ناظمہ تھیں تو بے اختیار تھیں کہ بااختیار صرف نائب ناظم ہی تھے۔ لیکن جب بھائی صدر ہو اور اس پرعدالتِ عالیہ کی نظر بھی ہو تو پھر سارے ملک میں اُکھاڑ پچھاڑ اور لین دین کی ذمّہ داری بہن نے ہی سنبھال لی ہے اور باقی کے جو اختیارات ہیں وہ منہ بولے بھائی کے حصے میں آئےہیں۔

پارٹی کے کارکن اور لیڈرانِ کرام کا کام صرف احکامات بجا لانے کا رہ گیاہے۔ جو پارٹی عوام کی سیاست کرتی تھی۔ اس نے عوام سے تو اپنی جان چھڑا ہی لی اب اس کا زور صرف اس چیز پر خرچ ہورہا ہے کہ کسی طرح مفاہمت کے نام پر جتنے بھی بچے کھچے ہیں اور اپنے ساتھ غریب پارٹی کے لیے جتنا بھی زیادہ پیسہ لا سکتے ہیں انہیں ہی عوام کی نمائندگی کا حقدار قرار دیا جائے۔

عوام کا تو جو کام ہے اسے وہی کرنا ہے۔ اس بے چارے کے پاس اور تو کوئی طاقت نہیں سوائے ووٹ کی طاقت کے۔ جو اب بھی اس کی جیب میں ہے اور یہ جیب کترے وہ ووٹ بھی کسی طرح سے اس کی جیب سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ چاہے اس کی جیب ہی کاٹنا پڑے۔ جیسے پانچ سال ڈرائنگ روم کی سیاست ہوئی اور لین دین عرف مفاہمت سے ملک چلا۔ یہ چاہتے ہیں کہ اب کہ ووٹ بھی ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھے بیٹھے مل جائے۔

نا بھٹو رہا نا بےنظیر، وہ تو اب بل بورڈز سے بھی غائب کیے جارہے ہیں اب جو تصویر نمایاں ہے وہ ایک بھائی کی ہے تو دوسری بہن کی، باقی جو بھی کچھ ہے سب ان ہی کے مرہونِ منت ہے۔

اب کی بار کہیں بھی اگر بے نظیر کا پوسٹر دکھائی بھی دے تو اس پر بڑے حروف میں سید اویس مظفر لکھا ہے جو نام بے چارے غریب کارکن نے اپنی پوری جدوجہد میں کبھی بھی نہیں سنا۔ لیکن اسے کیا معلوم کہ یہ وہی منہ بولا بھائی ہے جسے عرفِ عام میں ٹپی کہتے ہیں اور یہی منہ بولےبھائی، بہن کے بعد اس سندھ صوبے کے کالے سفید کے مالک ہیں۔

اب چونکہ قوم کو اور عدالت کو یہ اعتراض ہو رہا ہے کہ یہ ٹپی کون ہے؟ تو اس لیے اسے بھی ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لانے کا پروگرام ہے تاکہ عوام اور عدالت کا منہ بند رکھا جاسکے۔

ویسے منہ تو عدالت اور میاں صاحب کا بھی بند ہے کہ کئی کیسوں میں ملوث مفرور ملزم خود چل کر ملک آبھی چکا ہے۔ لیکن نا چیف صاحب نوٹس لینے کے لیے تیار ہیں، ناہی میاں صاحب منہ کھولنے کے لیے۔

چیف صاحب بھی بے چارے جہاں بس چلتا ہے وہیں نوٹس لیتے ہیں، وردی کی طاقت کا تو ان کو بھی اچھی طرح سے اندازہ ہے اور اپنا ہاتھ ہمیشہ ہولا ہی رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ جو بھی ہیں ان کو وہ البتہ انصاف ضرور دیتے ہیں، چاہے سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹ۔

اب چونکہ سیاسی حکومت نہیں رہی تو ان کی توجہ الیکشن کمیشن پر آگئی ہے۔ اب وہ الیکشن کمیشن کو بھی اپنا تابع کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی فیئر اور فری الیکشن کا کریڈٹ بھی چیف صاحب خود ہی لینا چاہتے ہیں اور اس خواہش کا بارہا اظہار کر بھی چکے ہیں۔اور فیئر اور فری الیکشن تو کسی طرح بھی ہونے ہیں، چاہے کریڈٹ کوئی بھی لے۔

بہر حال بات تو چار اپریل سے شروع ہوئی تھی اور پھر عدالتوں کی طرف نکل گئی۔ لیکن کیا کریں چار اپریل بھی تو اس قوم کے لیے عدالت کا ہی تحفہ ہے۔ سو بات کہیں سے بھی نکلے، جائیگی تو پھر بھی عدالت کی ہی طرف۔ عدالت لاکھ منہ چھپائے اور بلند بانگ دعوے کرے لیکن جن پر اس کے ہاتھ ڈالنے کا اختیار نہیں وہ ایسے ہی دندناتے پھرتے ہیں۔ کیونکہ جن کے سر پر اقتدار کے اصل مالکوں کا ہاتھ ہے، ان کا تو کوئی بھی بال بیکا نہیں کرسکتا۔

پچھلے پانچ سال ہم نے چار اپریل کو چھٹی کے طور پر منایا لیکن چونکہ آج چھٹی نہیں ہے اور روز روز کی چھٹیاں کروانے والوں کی خود کی چھٹی ہو ہی چکی ہے تو شہر کے بل بورڈز جو چار اپریل کے آتے آتے وزیروں کی تصاویر سے سج جاتے تھے جو انہوں نے اپنی ’حلال‘ کی کمائی سے نہیں دوسروں کی ’حلال‘ کی کمائی سے لگوائے ہوتے تھے۔ وہ اب کی بارغائب ہیں۔ شہر کچھ سونا سونا سا لگ رہا ہے اور سائیں سائیں بھی کر رہا ہے۔ کارکن ویسے بھی مایوس ہیں اور کوئی چھٹی بھی نہیں تو بے چارے جائینگے کہاں۔

اور جن کو جانا تھا انہوں نے تو اپنے آخری دن کی چھٹی بھی ختم کردی کہ جاتے جاتے کچھ رہ نا جائے۔ سو جو کچھ بھی بچا کھچا ہاتھ لگا، لے کے چلتے بنے کہ واپسی کی اب انہیں بھی امید کم ہی لگتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، ادھر یہ حضرات جاتی حکومت کی لنگوٹی بھی لے گئے ہیں۔ اب بے چارے نگران دیکھیں کیا کرتے ہیں، چالیس دنوں میں انتخابات ہی کروادیں تو بہت ہے، باقی کچھ تو ہونے سے رہا۔

رہا چار اپریل یا اٹھائیس دسمبر وہ تو قوم پھر بھی منائے گی کہ جو اس قوم کو لیڈر ملے تھے اس سے تو وہ انہیں محروم کر ہی چکے ہیں۔ باقی جو مفاہمت میں یقین رکھتے ہیں یا اس کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ایسے لیڈر بھی بہت ہیں اور پارٹیاں بھی بہت۔

اب کی بار تو انہوں نے ایسا کھیل رچایا ہے کہ سارے ایک دوسرے کے دشمن ایک دوسرے کی پارٹیوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ اب تو نا بندہ رہا ہے نا بندہ نواز۔ بھانت بھانت کے چہرے جو پہلے ہی ایک دوسرے کی خامیوں اور اچھائیوں سے اچھی طرح سے واقف ہیں۔ ووٹ کی طاقت سے اسمبلیوں میں آئینگے اور پھر ملک کو چلانے کے لیے وہی مفاہمت کام آئے گی جو پانچ سال سے اپنے کام دکھا رہی تھی۔

بس 'ادھر' کی طرف نہیں دیکھنا، صرف مل بیٹھ کر کھانا ہے اور اس ملک کو کسی طرح بھی چلانا ہے کہ ابھی اس کا ہونا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ باقی رہا اپنا غریب عوام وہ تو جیسے تیسے زندگی گذار ہی لیتا ہے۔

مسائل ، نعرے، جلوس اور احتجاج تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ جمہوریت کا حسن ہیں، سو وہ اسی طرح جاری رہینگے۔


خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔