نقطہ نظر

سندھو کا ڈیلٹا

کراچی کو قرض دینے والی خوش حال سرزمین اور شہر کا قصہ، جن کا حال عبرت ناک ہے۔

لوک قصے کہانیوں کا جو سانپ جوگیوں کے ہاتھوں سے پھسل کر سرپٹ رینگتا، وہاں اوپر کی تنگ پہاڑی گھاٹیوں سے زیریں سندھ کے سمندری ساحل تک پہنچا، وہ تو پکڑا گیا مچھیروں کے ہاتھوں مگر اُن کا احوال جاننے سے پہلے، بیچ میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا شاندار ماضی اور افسوسناک حال یہاں حائل ہے۔

پہلا حصہ: ہمالیہ کا سندھو سانپ؛ دوسرا تِمر کی تہذیب پڑھنے کے لیے کِلک کیجیے۔


یہ قصہ ہے سندھو ڈیلٹا کے عروج و زوال کا: تو بات یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز سے ذرا پہلے تک دریائے سندھ کا پانی، ہمالیہ کی بلندیوں سے بحیرۂ عرب کے ساحلوں تک، بنا کسی روک ٹوک کے پہنچتا تھا۔

دریائے سندھ اوسطاً دو لاکھ کیوسک سے زائد تازہ پانی بحیرۂ عرب میں اخراج کرتا تھا۔ یہ اخراج اُن ایک درجن سے زائد معاون نہروں اور کھاڑیوں کے ذریعے ہوتا تھا، جن کے نام آج بھی ہندوستانی، عرب اور افریقی ساحلوں کی سیاسی، معاشی اور کشتی رانی کی تاریخ اور زیریں سندھ کے لوک ورثے کا اہم حصہ ہیں۔

بحیرۂ عرب میں کشتی رانی کی تاریخ کے بارے میں لکھی کتابوں اور یاداشتوں میں متعدد حوالے موجود ہیں کہ پانی کے اتنے بڑے ریلے کے اخراج سے پیدا ہونے والی سمندری روئیں ساحل سے پانچ سو کلومیٹر دور تک کشتی رانی پر اثر انداز ہوتی تھیں اور دریائے سندھ کا مٹیالاپانی بحیرۂ عرب کے نیلگوں ساحل کو پچاس میل دور تک گدلا کر ڈالتا تھا۔

پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے گلیشیروں کے برفانی اور ساحل کے نیم گرم پانیوں کے ملاپ کی شدت سے، دریائے سندھ کا پانی مختلف آبی گذرگاہوں میں بھی آجاتا تھااور اس کی لائی ہوئی ریت و مٹی ہر روز نئی سرزمین کی تشکیل کرتی چلی جارہی تھی۔

میٹھے اور کھارے پانیوں کے مابین جاری کشمکش اور دریا کی شبانہ روزمحنت کے نتیجے میں، دریائے سندھ کا یہ ڈیلٹا ہزاروں سال کی ریاضت کے نتیجے میں، وجود میں آیا۔

دریائے سندھ ڈیلٹا کا کبھی تین ہزار مربع کلومیٹر سے زائدرقبے پرمحیط تھا۔ چونکہ دریا کی لائی ہوئی دس لاکھ ٹن سالانہ سے زائد ریت و مٹی کا بیشتر حصہ یہیں جمع ہوتا تھا، یوں یہ علاقہ زرعی پیداوار اور شادابی کے لحاظ سے پورے سندھ میں سب سے زیادہ زرخیز تھا۔ ڈیلٹاکا یہ خطّہ تین واضح حصوں پر مشتمل تھا۔

۔ بالائی حصے میں لائی کے گھنے جنگلات تھے، جن کی نشو و نما سیلابی پانیوں کی مرہونِ منت تھی۔

۔ ان جنگلات کے وسطی علاقے پیداواری طور پر زرخیز اورہموار زمینوں کے حامل تھے، جس پر سوہاند، پال گھاس اورلانا کی گھنی جھاڑیاں تھیں۔

۔ انتہائی نشیب میں،جہاں سمندر اور ڈیلٹاکی نہریں ملتی تھیں، تِمر کی دَلدَلیں اور ان میں نشونما پانے والی آبی حیات اور اُن پر انحصار کرنے والے لوگ آباد تھے۔

قدرتی عناصر نے دریائے سندھ کے تخلیق کردہ ڈیلٹا کی مٹی کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا بلکہ ساتھ لائی ہوئی باریک ریت کے باعث، اپنے خطّے کو سمندر میں ہر سال تقریباً تین کلومیٹر تک آگے بڑھانے کے قابل بھی بنادیا تھا۔

ڈیلٹا کے مختلف حصوں میں نباتات کی انواع وہاں ہونے والی پیداواری سرگرمیوں کا تعین کرتی تھیں۔

ڈیلٹا میں بسنے والا جت قبیلہ لائی کے جنگلات کاٹ کر بڑی تعداد میں عمارتی لکڑی حاصل کرتا۔ ان میں سے بیشتر حصے کو جلا کر کوئلہ بنایا جاتا تھا۔ یہ عمل خزاں اور سرما کے مہینوں میں اس وقت زیادہ تیز ہوجاتا تھا، جب دریا میں پانی کم اور سمندری لہروں کا جوش ٹھنڈا پڑجاتا۔

یہ کوئلہ صنعتی استعمال کے طور پر فروخت ہوتا تھا اوراس سے وابستہ جت قبیلے کے لیے یہ مالی آسودگی کا سب سے اہم سبب تھا۔۔۔ مالی آسودگی اور خوشحالی جو ڈیلٹا کی عطا تھی۔

یاد رہے کہ برطانوی راج کے ابتدائی برسوں میں معدنی کوئلے کا استعمال شروع ہونے سے پہلے تک، نارتھ ویسٹرن ریلوے، سندھ میں ہر سال ایک کروڑ مکعب فٹ لکڑی کا درآمدی کوئلہ بطورِ ایندھن استعمال کرتی تھی۔

ہموار علاقوں میں اُگنے والی 'سوہاند' اور 'پال' گھاس گائیوں، بھینسوں کا عمدہ چارہ تھی، چنانچہ اس علاقے میں مکھن اور دیسی گھی وافر مقدار میں پیدا ہوتا تھا۔ کاشت کاری جو تمام تر سُرخ چاول اُگانے پر مشتمل تھی، عموماً بغیر ہل جوتے کی جاتی تھی۔

سرخ چاول کی کاشت صرف ڈیلٹائی سرزمین کا خاصا تھی۔ سرخ چاول کی پیداورکی بدولت کئی علاقوں کے نام ہی سرخ ہوگئے۔ سندھی زبان میں سرخ کو ’گاڑھو‘ کہا جاتا ہے۔ چاول کی یہی سرخی زیریں سندھ کے ساحلی علاقوں کی کئی بستیوں کو 'گھاڑو' یا 'گاڑھو' کا لقب دے گئی۔

سرخ چاول کاشت کرنے والے کسانوں کے بکھیرے ہوئے بیجوں پر، دریا باریک مٹی کی تہ بچھادیا کرتا اور دھان کی روایتی کاشت کاری کے برعکس، یہاں کے کاشتکار ڈیلٹا کے بدولت اپنی زمین کو کھاد اورپانی دینے کی فکر سے آزاد تھے۔ یہاں کی زرعی مصنوعات و پیداوار سندھ بھر کے تمام علاقوں کی نسبت سب سے زیادہ تھی۔

لانا جھاڑیاں اور تِمر،دونوں اونٹوں کی خوراک کے لیے موزوں تھے اوریوں دَلدَلوں سے متصل ان علاقوں میں بہترین نسل کے نہایت صحت مند اونٹوں کی پرورش ہوتی تھی۔۔۔ اور بالکل آخر میں، سمندر اور عین تِمر کی دَلدَلوں کے درمیان دابلو ، میربحر اور وہ دیگر قبائل آباد تھے، جن کی گزر اوقات ساحلی کناروں پر کی جانے والی ماہی گیری پر منحصر تھی۔ چونکہ تِمر کی دَلدَلیں مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں کی افزائش کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے یہ خطّہ 'دولتِ ماہی' سے لبالب بھرا تھا۔

سندھ ڈیلٹا کے خطّے میں عمارتی لکڑی، کوئلہ، دیسی گھی، شہد، سرخ چاول اور اونٹ وافر تھے، اس لیے اضافی پیداوار سندھ کی بندرگاہوں سے مسقط، عدن، دوارکا، گومتی اور خلیجِ فارس کی بندرگاہوں کو برآمد کی جاتی تھی۔

یہی نہیں، عرب اور خلیجی ممالک کو اونٹ بھی برآمد کیے جاتے تھے۔ آج بھی کراچی کے نزدیک واقع ضلع ٹھٹھہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو اونٹ برآمد کیے جاتے ہیں مگر اب وہ پہلے جیسی بات کہاں؟

دریائے سندھ کے اختتامی دہانے پر حیدری اور اوچٹو نہروں (یہ ان درجنوں قدرتی آبی گزرگاہوں میں سے دو تھیں، جن کے ذریعے دریا کا پانی سمندر میں خارج ہوتا تھا) پرواقع ساحلی شہر کیٹی بندر اور شاہ بندر مصروف برآمدی و تجارتی سرگرمیوں کی حامل بندرگاہیں تھیں۔

یہاں سال بھر عرب بادبانی جہازوں، خلیج اور جزیرہ نمائے ہند کے مغربی ساحل سے آنے والے جہازیوں کا اژدہام رہا کرتا تھا۔ ساتھ ہی کئی یورپی ممالک کے بحری جہاز بھی لنگر انداز ہوتے تھے۔

ان دونوں بندرگاہوں کی مجموعی آبادی بیس ہزار سے زیادہ تھی اور ان کے میمن تاجر اور ہندو ساہوکار ایک خوشحال اور وسیع النسل برادری کی تشکیل کرتے تھے، جن کے سمندر پار غیرملکی شہروں سے، وادیِ سندھ کے دیگرشہروں کی نسبت، زیادہ مضبوط تجارتی روابط قائم تھے۔ اُس وقت شہری انتظام کے لیے کیٹی بندر میں ایک میونسپل کمیٹی بھی موجود تھی۔

تاریخ میں رقم ہے کہ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جب کراچی بطور بندرگاہ والے نئے شہر کی حیثیت سے ابھر رہا تھا تو اس وقت شہری انتظام کے لیے قائم کراچی کی بلدیہ کے مالی وسائل بہت کم تھے۔ ایک مرتبہ توکیٹی بندر کی میونسپل کمیٹی نے، کراچی کی میونسپل کمیٹی کواپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے نقد رقم بطورِ قرض دی تھی۔

اسی ساہو کار کیٹی بندر شہر کی سڑکوں پر رات کو روشنی کا باقاعدہ نظام تھا اور سُرخ چاول والے اس خطے کے ساحل پر دھان چِھڑنے کا ایک بڑا کارخانہ اُس وقت موجود تھا، جب میکانیکی طریقے سے چلنے والے کارخانے خال خال ہی تھے ۔۔۔ یہ سب سندھ ڈیلٹا کی عطائیں تھیں مگر ان پر بہت جلد تغیر آنے والا تھا۔

سندھ ڈیلٹا کے شاندار عروج پر تغیرات کا آغازاُنیسویں صدی کے آخری عشرے سے ہوا۔ تاریخ کا یہ اتفاق تھا یا مذاق، یا پھر ارتقا کا تسلسل کہ ایک جانب عظیم الشان ڈیلٹا کی ساحلی تہذیب پر زوال آرہا تھا تو دوسری جانب، اسی زیریں سندھ اور اسی دریائے سندھ کی کھاڑیوں سے متصل مچھیروں کا چھوٹا سا گاؤں کولاچی یا 'کولاچی جو کُن' کراچی کے نام سے عظیم بندرگاہ والے شہر کی شکل میں ابھرتا جارہا تھا۔


 

مختار آزاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔