بغیر وردی کے واپسی
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/85319004" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
اس بھٹکی ہوئی قوم کی رہنمائی کے لیے ویسے تو رہنماؤں کی کوئی کمی نہیں۔ انگنت رہنما ہیں کہ ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کوئی ملک میں بیٹھ کر اس کی رہنمائی کر رہا ہے تو کوئی ملک سے باہر بیٹھ کر بھی رہنمائی سے باز نہیں آتا۔ کوئی شوق میں رہنما بنتا ہے تو کوئی مجبوری میں اور کسی کو یہ الہام ہوجاتا ہے کہ قوم کو اس کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ کچھ بے چاروں کا تو روزگار بھی اسی رہنمائی کے پیشے سے وابستہ ہے۔
اور جو رہنمائی کو پیشہ نہیں بھی سمجھتے ان پر پھررہنمائی کا بھوت سوار ہو ہی جاتاہے۔ اور یہ بھوت اکثر تب سوار ہوتا ہے جب کوئی ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے اتنا بااختیار ہوجاتا ہے کہ اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ یہ قوم میری رہنمائی کے بغیر ایک قدم بھی آگے بڑھ نہیں سکتی۔ اگر وردی کے ہوتے رہنمائی کا بھوت سوار ہو تو وردی میں دس گیارہ سال نکل ہی جاتے ہیں ۔ لیکن اگر آپ نے کسی کے دھوکے میں آکر وردی اتاردی ہے تو پھر یہ رہنمائی کا بھوت آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔
اپنے مشرف بھائی پر بھی رہنمائی کا بھوت ایسا سوار ہوا ہے کہ وردی اترنے اورملک چھوڑنے کے بعد بھی جانے کا نام نہیں لے رہا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس میں بھوت کا کوئی قصور نہیں۔ یہ سب فیسبوک کا کیا دھرا ہے۔ اگر فیسبوک نا ہوتا تو شاید ان کا رہنمائی کا بھوت کہیں اور جاکر ڈیرے ڈالتا۔ لیکن اس فیسبوک نے بہت سوں کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔ لگتا ہے اب کی بار انتخاب بھی فیسبوک کے ذریعے کرنے کا مطالبہ ہوگا۔ کیونکہ یہ فیسبوک فین جب استقبال کے لیے نہیں آتے تو ووٹ ڈالنے کیسے آئینگے۔
لیکن اپنے مشرف بھائی بھی ’میں آرہا ہوں‘ ’میں آ رہا ہوں‘ کی دھمکیاں دیتے دیتے بالآخر اس سرزمینِ پاک پر نازل ہو ہی گئے ہیں اور آتے ہی یہی فرمایا ہے کہ ’میں صرف یہ بتانے کے لیے آیا ہوں کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا ، جو یہ کہہ رہے تھے کہ مشرف نہیں آئے گا، وہ دیکھ لیں میں آگیا ہوں‘ جاتے وقت تو وہ یہی کہہ گئے تھے کہ اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے اور اب کہتے ہیں کہ میں ملک بچانے کے لیے آیا ہوں!
ویسے تو جنہوں نے ملک بچانے کا پہلے ذمہ لیا ہوا ہے اور ملک کاآدھے سے زیادہ بجٹ بھی ملک بچانے کے چکر میں ہی خرچ ہو رہا ہے اور ملک کو بچانے کے لیے مدد کے طور پر انہوں دفاع پاکستان کونسل بھی بنا ڈالی ہے تو اس جیسی اور تنظیموں کا خرچہ بھی اٹھا رہے ہیں کہ وقت ضرورت ان کا صحیح استعمال کرسکیں۔۔ ان سب کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مشرف بھائی اس ملک کو بچانے کے لیے آ دھمکے ہیں ۔ جوپہلے تواپنے نام کے آگے جنرل لگانا پسند کرتے تھے اب انہوں نے نام کے آگے سید کا اضافہ کردیا ہے کہ جنرلوں کی تو اپنے ملک میں جو عزت ہے وہ انہیں معلوم ہو ہی چکی ہے ۔اس لیے انہوں نے اپنے سید ہونے کا فائدہ اٹھانے کا سوچا ہے کہ سید کو تو اپنا غریب عوام ہمیشہ سر پر ہی بٹھاتا ہے پھر بھلے سید کیسا بھی ہو۔
ویسے اس قوم کے رہنماؤں کے دل میں جو قوم اور ملک کے لیےدرد کا سمندر ٹھاٹھیں مار ہا ہوتا ہے، وہ بھی صرف اپنے رہنما ہی جانتے ہیں اور اپنے مشرف کا دل تو ویسے بھی خون کے آنسو رو رہا ہے کہ اس لٹی پٹی قوم کو جمہوریت نے اور بھی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جو ملک وہ چھوڑ گئے تھے وہ تو اب ویسا نہیں رہا البتہ قوم نے اگر انہیں منتخب کیا تو ضرور پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا۔ یوں تو ملک کو واپس اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اپنے اور رہنما بھی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
جہاں میاں صاحب اپنےرائیونڈ کے محل میں بیٹھ کراس غریب قوم کے دکھوں میں دبلے ہو رہے ہیں۔ وہیں اپنے خانصاحب لاہور کا سیمی فائینل جیت کر فائنل میں پہنچ گئے ہیں۔ اب جیت تو ان کا مقدر ویسے بھی بن ہی چکی ہے۔ لیکن کوئی انہیں یہ بھی یاد دلادے کہ اسی جگہ سے جو دوہری شہریت والا انقلاب لاتے لاتے رہ گیا تھا۔ تو یہ جو انہوں نے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کرسونامی کی امید لگا رکھی ہے وہ بھی کہیں اپناراستہ نا بدل دے۔ ویسے بھی اپنے لہوری رونق میلے کے زیادہ شوقین ہیں اوربغیر ڈھول اور ناچ کے تو وہ احتجاج بھی نہیں کرتے۔ اور اپنے چھوٹے شریف تو ان کی ان عادتوں سے خوب واقف ہیں۔ جھوم جھوم کے شاعری پڑھنا تو انہوں نے سیکھ ہی لی ہے اور اگر ساتھ میں بھنگڑا ڈالنا شروع کردیا تو بے چارہ سونامی کہیں راستے ہی میں نا بھٹک جائے۔