نقطہ نظر

شاویز کا ورثہ

شاویز نے اپنی عظیم جدوجہد سے ثابت کیا کہ سوشلسٹ نظریات میں اب بھی جان باقی ہے

وینیزویلا کے صدر ہیوگو شاویز کینسر سے ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد پانچ مارچ 2013 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے-

کیوبا میں چوتھی مرتبہ آپریشن کے بعد وہ حال ہی میں اس جگہ واپس ہوئے تھے جسے وہ پیار سے " گریٹ فادر لینڈ " کہتے تھے-

قیاس یہ ہے کہ ان کی موت پر مغرب کے دارالحکومتوں کے علاوہ خود ان کے ملک کی جاگیردار اشرافیہ نے بھی خوشی منائی ہوگی جو پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے "بولی ویرین انقلاب" کا گلا گھونٹنے کیلئے کوشاں تھی جس کا آغاز شاویز نے 1998 میں پہلی بار صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد کیا تھا-

شاویزنے بائیں بازو کے ان بہت سے غیر مغربی ممالک کے عوامی رہنماؤں کی راہ اختیار کی تھی جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی "ایمپائر" کو ہلا دیا تھا-

شاویز بذات خود اس سیاسی تحریک کے لئے قابل تحسین ہیں جسکی انہوں نے قیادت کی تھی ----- جسکی قسمت کا حتمی فیصلہ بعد میں آنے والی نسلیں کرینگی ----- یہ وہ سیاسی تحریک تھی جسکی آبیاری انہوں نے سوویت بلاک کی حیرت انگیز ٹوٹ پھوٹ کے بعد کی اور اس کے نتیجے میں سوشلسٹ پروجیکٹ ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا-

یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی- 2013 کی دنیا میں ہمیں کہیں بھی کوئی اہم انتہا پسند بائیں بازو کا بلاک نظر نہیں آتا، اگرچہ کہ چند ایک مخالف سرمایہ دار گڑھ ایسے موجود ہیں جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں- سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بیس سال تک ایسی کوئی صورت حال موجود نہیں تھی- ان دنوں "تاریخ کا خاتمہ" (اینڈ آف ہسٹری) کا نظریہ رائج الوقت تھا جسے فرانسس فوکویاما نے قبولیت عام بخشی تھی، آزاد جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو وسیع پیمانے پر"روشن خیالی" کا ناگزیر نقطہء عروج سمجھا جاتا تھا-

شاویز نے سوویت یونین اورمشرقی یورپ کی سوشلسٹ ریاستوں کے ٹوٹنے کے صرف سات سال بعد اقتدارسنبھالا- صدارت پر فائز ہونے کے ایک سال کے اندر ہی نام نہاد اینٹی گلوبلائزیشن تحریک سیاٹل میں منعقد ہونے والی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے دوران اپنی بلوغت کو پہنچ چکی تھی-

اگلے چند برسوں کے دوران اس تحریک میں اتار چڑھاؤ آتے رہے اور تحریک ا ن دنوں اپنے عروج پر پہنچ گئی جب مارچ 2003 میں عراق پر منڈلاتے ہوئے حملے کے خلاف لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل آئے-

ان دنوں سرعت کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اسکے بعد لگ بھگ ایک دہائی تک کوئی ایسے واقعات رونما نہیں ہوئے جن پر ہم خوشی کا اظہارکرسکیں، لیکن اس بات میں کچھ شبہ نہیں کہ نیولبرل کا بلبلہ پھٹ چکا ہے، جب کہ امریکہ اور اب یورپ عالمی مالیاتی بحران سے ہونے والی تباہی سے باہر نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں-

اس بات پر اصرار کرنا مبالغہ آمیزی ہوگی کہ شاویز عالمی رائے عامہ میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کا محرک تھے جبکہ ان کے بالمقابل نیو لبرل ماڈل نشوونما پا رہا تھا اور عراق، افغانستان اور دیگر کئی ایک ملکوں میں سامراج کی جنگیں لڑ رہا تھا- لیکن یہ بھی ناانصافی ہوگی اگر ہم شاویزکے اس رول کو تسلیم نہ کریں جس کے ذریعہ انہوں نے ثابت کیا کہ سوشلسٹ نظریات میں اب بھی جان باقی ہے اور یہ کہ سرمایہ داری وہ نقطہء عروج نہیں ہے جس پر چڑھ کر انسانیت اجتماعی بہبود کی منزل پر پہنچ سکتی ہے-

کچھ نہ ہو تب بھی شاویز ایک ایسے دور میں تازہ ہوا کا جھونکا تھے جس کے بارے میں بے پس و پیش یہ کہا جاتا تھا کہ "اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے" عام طور پر ناقدین ان دنوں اس قسم کی باتوں کو لنترانیوں سے تعبیر کیا کرتے تھے لیکن ستمبر 2006 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شاویز کی وہ تقریر یادگار تقریر ہے جس میں انہوں نے جارج ڈبلیو بُش کے کاؤ بوائے سامراج کو نشانہ بنایا تھا-

سیاسی تھیٹر کے پردے پر شاویز نے جرأت سے کام لیتے ہوئے بش کو "شیطان" کے نام سے پکارا اور ان لاکھوں سامراج دشمن افراد کے جذبات کی ترجمانی کی جس کے وجود سے ہی کارپوریٹ میڈیا نے انکار کر دیا تھا- ٔ

مغربی حکومتوں نے شاویز حکومت کے خلاف صرف نعرہ بازی ہی نہیں کی بلکہ ان کے خلاف نازیبا زبان بھی استعمال کی گئی کیونکہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہہں تھا-

وہ ایک ایسے ملک کے رہنما تھے جو تیل کی برآمدات میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر تھا- انہوں نے وینیزویلا کی امراء شاہی کے خلاف ایک عظیم الشان جدوجہد کی قیادت کی اور تیل سے حاصل ہونے والی دولت کا رخ تعلیم، صحت، اور پینے کے پانی کی جانب موڑ دیا- ملک کے غریبوں میں زرعی زمینیں تقسیم کیں اور لاطینی امریکہ کے بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی حکومتوں کے ساتھ مل کر، جوکئی دہائیوں سے واشنگٹن کے محکوم رہے تھے، علاقائی بلاک بنایا-

امید کے مطابق کارپوریٹ میڈیا کے شور و غوغا کے باوجود، شاویزکا "بولیویرین انقلاب" وہ سب سے پہلا انقلاب تھا جس نے وینیزویلا کے محنت کش عوام کو متحد کیا تاکہ وہ ریاستی افسر شاہی سمیت ملک کی مقتدر طاقتوں کو خود اپنے ہاتھوں میں لے سکیں-

فیڈل کاسترو پر جنھیں شاویز مسلمہ طور پر اپنا استاد سمجھتے تھے طویل زمانے سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ایک سنگدل آمر ہے جبکہ کیوبا اور وینیزویلا، دونوں ہی ملکوں میں اس سے کہیں زیادہ جمہوریت موجود ہے جو نام نہاد "آزاد دنیا" میں نظرآتی ہے جہاں میڈیا مغل کے مالیاتی آمروں اور جنگی صنعتوں کے ایک ہلکے سے اشارے پر کایا پلٹ جاتی ہے-

درحقیقت یہ وینیزویلا کے عوام ہی تھے جنہوں نے اپریل 2002 میں شاویز کے خلاف ہونے والی بغاوت کو ناکام بنا دیا تھا جس کے بارے میں وِینیزویلا کی حکومت کا خیال تھا کہ سی آئی اے اس کی پشت پناہی کر رہی ہے-

عوامی طاقت کے ایک شاندار مظاہرے میں وینیزویلا کے عوام لاکھوں کی تعداد میں دارالحکومت کراکاس میں اس کے اگلے دن ہی جمع ہو گئے جس دن فوجی شاویز کو اٹھا کر لے گئے تھے اورانہوں نے باغیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اورشاویزکو ایوان صدر آنے دیں-

یہ دلیل پیش کی جاسکتی ہے کہ اس دن جو ڈرامائی واقعات رونما ہوئے اسکی وجہ جزوی طور پر یہ تھی کہ خود شاویز بھی فوج سے تعلق رکھتے تھے- یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے 1992 میں درمیانہ درجے کے فوجی افسروں کی مدد سے اقتدار میں آنے کی کوشش کی تھی جو ناکام ہو گئی تھی- بہ حیثیت سویلین صدارتی عہدے پر منتخب ہونے کے بعد بھی فوجی حلقوں میں ان کے ہمدرد موجود تھے-

اس حقیقت کے باوجود کہ ونیزویلا کی فوجی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ انکل سام کی ایجنٹ رہی ہے ---جیسا کہ ہمارے مُلّا ہیں--- اب یہ بات واضح ہوجائیگی کہ آیا شاویز اداروں کی ہییٔت میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی دیکھ رہے تھے یا اس کے برعکس انقلاب دشمن قوتیں ایک بار پھر فوج کی پشت پناہی سے دوبارہ اقتدار پرقابض ہونا چاہتی ہیں-

بالاخر وینیزویلا کے مستقبل کا فیصلہ اسکے عوام کرینگے ---لاکھوں عوام جو "شاویزی" ہیں--- جو انقلاب کے حامی ہیں ---جو قدرتی طور پر اپنے رہنما کو کھو دینے پر افسردہ ہیں- لیکن نہ تو وہ منہ کے بل گرینگے اور نہ ہی گزشتہ چودہ برسوں کی کامیابیوں کو ناکامیوں میں تبدیل ہونے دینگے-

اس بات کی پیش بینی کرنا ممکن نہیں ہے کہ شاویز کی موت کے بعد ملک میں کیا ہوگا، خاص طور پر اس صورت میں کہ واشنگٹن کی قوی کوشش ہے کہ وہاں ایک "دوست" حکومت قائم ہو-

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وینیزویلا میں "اکیسویں صدی کے سوشلزم" کا تجربہ اتنا ناپائیدار نہیں ثابت ہوا جتنا کہ اس کے مخالفین اسے ثابت کرنا چاہتے تھے-

بیسویں صدی کے سوشلسٹ پروجیکٹس پر جو اہم سوالیہ نشانات ہیں اس کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے محنت کش عوام نے اپنی خواہش سے انقلابی منصبوں کو چھوڑ دیا تھا- لیکن بالاخر اس کاز سے وابستگی میں جو کمزوری نظر آتی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خود اس کے کاز میں اندرونی تضادات موجود ہیں-

ہیوگو شاویز جس قسم کا وینیزویلا تعمیر کرنے کی گزشتہ چودہ سال سے کوشش کر رہے تھے وہ کوئی مثالی، ناقابل عمل منصوبہ نہیں تھا- لیکن سوشلزم نے تو کبھی بھی کسی مثالی معاشرے کو قائم کرنے کا دعویٰ نہیں کیا، وہ تو ہمیشہ سے انسانیت کی بہترین صلاحیتوں کو آشکار کرنے کا داعی رہا ہے- شاویز نے ہمیں امید دلائی ہے کہ آج بھی انسانیت کو زندہ رکھا جا سکتا ہے- اس کامیابی کا حصول ہی اس بات کا ضامن ہوگا کہ انہوں نے جوورثہ چھوڑا ہے وہ قائم رہیگا-


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

عاصم سجاد اختر

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔